Home کورونا -لاک ڈاؤن اور مسلمان

کورونا -لاک ڈاؤن اور مسلمان

ٹوکیو کے ایک ماہر امراض جنہیں اپنے شعبے میں قابل قدر خدمات پر نوبل انعام بھی دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس انسانی تخلیق ہے۔اسے کچھ خاص مقاصد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔وہان چین سے ساری دنیا میں غضب ڈھانے والاوائرس امریکہ کی نظر میں چین کی جنگی دشمنوں کو زک پہنچانے کی قوت کے اظہار کے لیے بنایا گیا جرثومہ ہے۔اسی قدر چین کا الزام یہ ہے کہ کچھ سال قبل امریکی فوجیوں کے ذریعہ اس وائرس کو چین پہنچایا گیا ہے۔تیسری جانب اکانومسٹ اسرائیلی میگزین کی اگر مانیں تو اس وائرس کو انہوں نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔
اس بیماری کا علاج تو خاص نہیں البتہ ویکسن بنائی جاچکی ہے جس کاتجربہ جانوروں سے قبل انسانوں پر کیا جارہا ہے۔۲؍ڈوزسے کام بنتا نظر نہیں آتا۔اس کے باوجود کورونا حملہ آور ہو ہی جاتا ہے۔جن لوگوں نے اس کے علاج کا دعوی کیا ہے اس میں گومتر کا استعمال،تھالی اور تالی بجانا،دئیے روشن کرنا،ناک منہ ڈھانکنا،سماجی دوریاں بنائے رکھنا ،غیر متوازن ذہنی مریض کی طرح ہرمرتبہ ہاتھوں کو دھوتے رہنا ہی بتلایا گیا ہے۔گومتر کو استعمال کرنے والوں نے کورونا کو کس قدر شکست دی ہے میڈیکل کے اعداد وشمار بتلائے جا سکتے ہیں تھالی وتالی بجانے سے الٹا صوتی آلودگی میں اضافہ ہی ہوا ہے،دئیے روشن کرنے سے ہوسکتا ہے کہ حکومت کو کچھ نہ کچھ بجلی کی بچت رہی ہوگی ورنہ کورونا کو اندھیرے میں اپنے پاؤں پسارنے کا اور موقع ہی ہاتھ آیاہوگا۔
سماجی دوریاں بنائے رکھنا بھارت کی پراچین تہذیب کا اہم حصہ ہے۔بھید بھاؤ پیدائش کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ،اس وقت بھید بھاؤ بیماری کی وجہ سے ہے۔دونوں میں قدر مشترک دوری رکھنا ہے۔ناک اور منہ ڈھانکنے کو علاج سمجھنے والوں نے اسے بڑی خوبصورتی سے اپنایا ہے۔کیوں کہ پسماندہ افراد منہ کو ڈھانپ کر اعلی ذات کی بستیوں سے گزرنے پر مجبور کیے جاتے تھے۔خود ماسک کے استعمال سے افراد کی شناخت مشکل ہوگئی ہے۔آواز کچھ رہنمائی کرتی ہے لیکن اکثر غلط فہمی ہوجاتی ہے۔کورونا کی علامات میں سانس کا پھولنا اور پھیپڑوں کاسکڑنا بھی ہے۔اس حالت میں ماسک کا استعمال ’’چی معنی دارد‘‘؟
آکسیجن سے پھیپڑوں کو سہولت ملتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ واپس کردیا جاتا ہے۔ماسک لگانے کی شکل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ دوبارہ پھیپڑوں میں واپس چلی جاتی ہے۔آکسیجن کا کم ملنا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جسم میں واپس چلا جانا کیا ہمیں بیماریوں کا شکار نہیں کرتا ہے؟۔قفل بندی نے کاروبار دنیا کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔محنت مزدوری کرنے والوں کی جان پر آن پڑی ہے،گذشتہ قفل بندی سے آج تک معاملات نہیں سنبھل پائے تھے کہ دوبارہ وہی دن آ کھڑے ہوئے ہیں۔غریب کیا کریں؟جن لوگوں نے گذشتہ سال اپنی آمدنیوں سے دوسروں کی امداد کی تھی آج بعض ان میں سے خود امداد کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔سرکاری گوداموں میں اناج بھرا ہونے کے باوجود وہ غریب کی کٹیا تک نہیں پہنچ پارہا ہے۔گذشتہ اپریل میں مزدور اور غریبوں کی ہجرت کے مناظر میڈیا کی زینت بنے تھے کیا پھر وہی سماں بننے جارہا ہے؟
اس پوری بھاگ دوڑ میں دنیاوی نقصان تو ہوا ہی ہے لیکن مسلمانوں کا دینی نقصان بھی بہت ہوا ہے۔ان کی مساجد صحت مندوں کے لیے بھی بند کردی گئیں۔رمضان میں پورا قرآن سننے کی سنت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی کیوں کہ مساجد بند ہوگئی تھیں۔اعتکاف،شب قدر کا اہتمام،نوافل کا اہتمام سب Covid19 کی نذر ہوگیا۔جمعہ وعیدین کی نمازوں کو قفل بندی میں ادا کرنا پڑا۔حرم کی تالابندی نے دنیا کے مسلمانوں کی زبانوں پر تالے ڈال دئیے اور دنیا کو زبانیں عطا کردیں۔حج و عمرہ سب اسی کی نذر ہوگئے۔روحانی طور پر امت کا دوہرا نقصان ہوا ہے۔کم از کم مسلمان اب کے رمضان میں مساجد پر کوئی Compromise نہ کریں۔ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ کوئی کوویڈ کے علامت زدہ یا بیمار شخص مسجد میں نہ آئے،لیکن صحت مندوں کو کیسے روکا جاسکتا ہے جب کہ اذانیں بھی دی جارہی ہوں؟پروٹوکول کا خیال رکھا جائے لیکن جہاں بنیادیں ختم ہوں تو پھر شریعت کو اختیار کیا جانا چاہیے۔جن لوگوں کے پاس نماز کی صف میں ذرا سا فاصلہ بھی گوارا نہیں تھا،وہ تین تین فٹ دور کھڑے صف بندی فرمارہے ہیں۔دعوتوں میں،بازاروں میں،اسفار میں جو لوگ دوریاں نہیں بنا پارہے ہیں وہ نمازیں دوریاں بنا کر ادا کررہے ہیں۔مجبوریاں اللہ جانتا ہے لیکن کچھ بندوں کو بھی غور وفکر کرنا چاہیے۔
ہمارے لیے جتنا ضروری دودھ،کرانہ،سبزی اور دوا ہے اتنا ہی ضروری اللہ کے حضور جھکنا اور اس کی محبت اس کے احکام بجا لانا ضروری ہے۔اس کی عبادت معتبر بنتی ہے اس کے پروٹوکول کو پورا کرنے سے،فرض نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی آمد ضروری ہے۔نمازیں ہوتو جاتی ہیں لیکن سماجی رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔اجتماعیت کا ایک ستون ڈھ جاتا ہے۔
تیسری بات کہ ہمارا بھرم جو ہمارے عقیدے اور تواتر کی وجہ سے بنا ہوا تھا بکھرنے لگتا ہے۔حرم کی عبادت بند،جمعہ گھروں میں،سوچ وفکر میں تبدیلی آتی ہے۔کورونا کو تھالی اور تالی اور دئے جلاکر بھگایا جاسکتا ہے۔بڑے بڑے دینی مدارس اور اہم شخصیات نے اس بدعت کو اپنایا ہے۔رمضان کا موسم بہار کورونا کی خزاں سے متاثر ہوا چاہتا ہے۔اس سلسلہ میں کچھ ایسا طئے ہونا چاہئے کہ بہار بہار رہے اور خزاں کا مقابلہ بھی کیا جائے۔علماء اور دانشوروں کو رہنمائی کرنی چاہیے۔

 

Share: