اس وقت بابری مسجد کے قضیہ میں عدالت کے ذریعہ انصاف کے حصول کی لڑائی آخری مرحلے میں ہے ، اگرچہ اب تک کی اس کشمکش کا کوئی اطمینان بخش حل نہیں نکل سکا اور بڑی حد تک اس شعر کا مصداق نظر آتا ہے ؎
تمہیں مخبر، تمہیں منصف ، تمہیں قاتل ٹھہرے
اقرباء میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر؟
۲۲، ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کو چوری چھپے آدھی رات کے بعد تالا توڑ کر شرپسندوں نے بلاجواز مسجد کے ممبر پر مورتیاں رکھ دی تھیں۔ جبکہ حسب معمول عشاء کی نماز کے بعد مسجد کو مقفل کرکے امام اور مقتدی اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔ اس کی کچھ تفصیل علاقہ کی پولیس کی ایف آئی آر میں درج ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل ماتا پرشاد نے جن الفاظ پر مشتمل رپورٹ درج کی ہے اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریخ تک مسلمان بابری مسجد میں باقاعدہ نماز ادا کرتے چلے آرہے تھے اور بابری مسجد کے مسجد ہونے میں کوئی شک یا اختلاف نہیں تھا۔ اس رپورٹ میں صاف طور پر پانچ مرتبہ بابری مسجد کو مسجد کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور اس کے مسجد ہونے میں کوئی شک یا اختلاف نہیں ہے۔ یاد رہے کہ رپورٹ از خود پولیس نے درج کی اور مسجد میں چوری چھپے مورتیاں رکھنے والوں کی اس حرکت کو غیر قانونی اور مجرمانہ اقدام قرار دیا گیا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کے لئے بھی کہا گیا تھا۔ اس کے بعد تقریبا سینتیس سال تک مسجد میں تالا پڑا رہا اور کیس کی نوعیت کو بدلنے کی سازش کو روبہ عمل لانے کی مجرمانہ کاروائی کی جاتی رہی۔ اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نے اس مجرمانہ سازش روبہ عمل لانے میں حد درجہ لاقانونیت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بدلے میں اسے ممبر پارلیمنٹ بننے کا موقع دیا گیا اورحکومت تماشائی بنی رہی۔ مسلمانوں پر مسجد میں یا اس کے آس پاس جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
بابری مسجد کل ، آج اور آئندہ (ماضی ،حال و مستقبل):
بابری مسجد ۱۵۲۸ھ میں بابر کے سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کرائی تھی۔ جس میں مسلمان ۱۹۴۹ء تک نماز ادا کرتے رہے۔ ۹؍ نومبر ۲۰۱۹ءکو ہندوستان کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ)نے طویل سماعت کے بعد جو فیصلہ سنایا وہ باہم متضاد اور قانون و انصاف کے تقاضوں سے متصادم نظر آتا ہے ۔ حالانکہ عدالت نے دورانِ سماعت واضح طور پر یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ فیصلہ آستھا کیا بنیاد پر نہیں کیا جائیگا۔ اس سلسلے میں چند معروضات حسب ذیل ہیں :
*عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد ۱۵۲۸ھ میں بابر کے سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کرائی تھی اور اس کے لئے کوئی مندر توڑا نہیں گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مسلمان ایک طویل عرصے سے دسمبر ۱۹۴۹ء تک مسجد کی عمارت میں نماز پڑھتے رہے اور بابری مسجد مسلمانوں کے قبضہ و تصرف میں رہی۔ عدالت نے یہ بھی مانا ہے کہ ۱۹۴۹ء میں خلاف قانون طریقے سے مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئی تھیں جو ایک مجرمانہ حرکت تھی۔
*سپریم کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ گنبد کے نیچے کی زمین کو جائز ناجائزکسی شکل میں پوجا جانا ثابت نہیں ہے۔ ۲۳۔۲۴ دسمبر ۱۹۴۹ءکی درمیانی شب میں بابری مسجد میں چوری چھپے مورتیاں رکھ دی گئی تھیں وہ عدالت کے نظر میں قانون کی خلاف ورزی اور ایک مجرمانہ حرکت تھی ۔
* سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا ہے کہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت آئین ہند کی خلاف ورزی تھی۔
مذکورہ حقائق کے علاوہ متعدد شواہد ایسے ہیں جو بابری مسجد کی تائید میں بطور ثبوت پیش کئے جاچکے ہیں۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہئے کہ بابری مسجد قانون و انصاف کی نظر میں مسجد ہے ، مسجد تھی اور مسجد رہے گی۔ انصاف کے حصول کی طویل جد و جہد کے بعد بھی بابری مسجد کو انصاف نہیں ملتا تو اس سے بڑی بے انصافی و لاقانونیت اور کیا ہو سکتی ہے؟