Press Release

مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری مسلم قیادت میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے ہے۔(وحدت اسلامی)

وحدت اسلامی ہند کے سیکریٹری جنرل جناب ،ضیاءالدین صدیقی صاحب نے اپنے ایک پریس نوٹ میں مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کو مسلم قیادت میں خوف وہراس پیدا کرنے کے لئے کی گئی کاروائی کہا ہے۔نیز انھوں نے مولانا کو فوری رہا کرنے،اوچھی سیاست ونفرت سے دور رہنے کا بھی انتباہ بھی دیا۔جو لوگ اسلام نہیں جانتے انھیں اسلام سے روشناس کروانا مسلمانوں کا فرض منصبی ہےاور وہ ہر حال میں اپنے اس فرض کو پرا من طریقوں سے جاری رکھیں گے۔ دعوت قبول کرنا ‘نہ کرنا مدعو کی ذمہ داری ہے۔اس لئے کہ اسلام میں زورو زبردستی نہیں ہے ۔ (لا اکراہ فی الدین) دنیا میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے جو صورتحال ہے اسکے کچھ مظاہر بھارت میں بھی نظر آرہے ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی صاحب کی اپنے چار ساتھیوں سمیت گرفتاری اسی قبیل سے ہے۔اس سے قبل عمر گوتم اور انکے ساتھیوں کی گرفتاریاں بھی اسی وسیع تر مقاصد کو پورا کرنے کے لئےتھیں ۔یوپی کے اعظم خان اور ان کے خاندان کو ہراساں کیا جانا اور سیکڑوں کیس میں حوالات کی نذر کر دینا اسی ذہنیت کا مظہر ہے۔ حیدرآباد کے ممبر آف پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ جو دہلی میں ہے۔اس پر دن دھاڑے حملہ بھارت میں قانون اور امن کی صورتحال کا مذاق اڑاتے ہوئےنظر آتے ہیں۔ کورونا کی صورتحال میں سب کچھ کھلا ہے اگر کچھ بند ہے تو مذہبی مقامات بالخصوص مساجد ، جس کا اثر مسلمانوں کی سماجی زندگی پر بڑا گہرا پڑ رہا ہے۔ نئی نسل کی ذہنی صورتحال ٪34 کم ہوگئی ہے۔ بے روزگاری سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ کاروبار ٹھپ پڑے ہیں۔ عوامی صحت بھی کل ملاکر متاثر ہے۔ ایسے میں نفرت بھری سیاست سے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انھیں’’ابّا جان‘‘ کہنے میں مزہ آرہا ہےاور مظلوموں سے ’’جےشری رام‘‘ کہلواکر اپنی بہادری کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ اوچھی سیاست ہے جس سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی صاحب تو اسلام کا محبت و امن سے بھرا پیغام لوگوں تک پہچارہے تھے۔ انھیں گرفتار کرکے انتظامیہ نے اپنے ارادوں کو بے نقاب کردیاہے۔ دوسری طرف اعظم خان اور اویسی جیسے سیاستداں تک محفوظ نہیں ہیں۔ شفیق الرحمن برق ؔپر کئی FIRدرج کردی گئیںہے ،اس بات پر جو انھوں نے کہی ہی نہیں تھی۔ مولاناسجاد نعمانی پر کئی FIRہوئیںہیں۔میڈیا جس انداز سے ٹرائیل چلا رہا ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلاموفوبیاسے متاثر یہ لوگ مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتے ہیں بالخصوص ان کی قیادت کو متاثر کرنا چاہتےہیں۔ ضیاء الدین صدیقی صاحب نے مولانا کلیم صدیقی صاحب کو انکے ساتھیوں سمیت فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہےاور عوام الناس سے اپیل کی ہےسب مل جل کر متحد ہوکر ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہوئےاستقامت سے کام لیں۔ ہمت و حوصلوں کو بر قرار رکھیں ۔ پریس سیکریٹری ایم.فلاحیؔ

طالبان کی کامیابی نے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی ہے۔

وحدتِ اسلامی ہند کے معتمد عمومی جناب ضیاء الدین صدیقی صاحب نے اپنے پریس نوٹ کے ذریعے کہا ہےکہ ’’ طالبان کی کامیابی نے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی ہے ، کیونکہ مکہ بغیر خون خرابے کے فتح ہوا تھا، نبی کریم ﷺ نے اپنے دشمنوں کو عام معافی کا اعلان فرمادیا تھا۔ بغیر غرور و تکبر کے ذکر الٰہی سے زبان تر اور سر جھکا ہوا تھا، اس حالت میں آپ ﷺمکہ میں داخل ہوئے۔ ٹھیک ڈیڑھ صدی بعد طالبان نے بغیر خون خرابے کے کابل کو فتح کردیا۔ داخلے سے قبل اپنے دشمنوں کو عام معافی کا اعلان کیا، سیدھے سادھے انداز میں بغیر تکبر و گھمنڈ کے کرسی صدارت پر جاکر سورۃ النصر کی تلاوت کی ، جدید اسلحہ سے عاری طالبان ، دولت سے خالی طالبان ، فوجی حکمتوں سے دور طالبان اپنے ایمان ، اپنے خدا پر توکل ، اپنی سوچ و فکر پر استقامت اور مسلسل جہاد و قربانیوں کے ذریعے اس مقام پر پہنچے ۔ وقت کی سوپر پاور شکست کھا کر فرار ہو گئی ہے، اس کی کٹھ پتلی حکومت اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ڈھ گئی اور افغانستان اپنے وقت کی سوپر پاور انگلستان پھر سویت یونین اور اب یونائٹیڈ اسٹیٹس آف امریکہ کے لئے قبرستان بن گیا۔ اسلاموفوبیا کے تحت طالبان سے ڈرایا جا رہا ہےکہ عورتوں پر ظلم کرتے ہیں ، برقعے میں بند کردیتے ہیں ، آزادی نہیں دیتے،انسانی حقوق پامال کرتے ہیں، لڑکیوں کے تعلیم کے خلاف ہیں ، شریعت میں سخت سزائیں ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو ذرا ٹھہر کر دیکھنا چاہئے کہ افغانستان میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ ہمیں امید ہیکہ جو کچھ غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں وہ دور ہوں گی اور جو غلطیاں ہیں وہ درست کی جائے گی۔ یہ تمام اشارے طالبان کے نمائندوں نے واضح انداز میں دے دیئے ہیں ۔ عالمی برادری کو ٹھہر کر یہ سب دیکھنا چاہئے، ہمارے ملک کے لئے بھی یہی رائے ہمارے ذہین دانشوروں کی ہے کہ ہمیں طالبان سے رابطے بنانے چاہئے، خواہ مخواہ انہیں اپنا دشمن بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں اتنی تو گنجائش نکلنی ہی چاہئے کہ اختلافی نقطہ نظر کو بھی برداشت کیا جا سکے۔ ہم تمام اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ اس خطے میں امن و امان باقی رہے اور ایکدوسرے کا احترام اور اس کی قدر کی جائے۔ پڑوسیوں سے اچھے تعلقات اور عدل و انصاف کے ذریعے ہی امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اسلام کے نام پر افغانستان میں جو تبدیلیاں آئی ہے ، ہر مسلمان کو اس کی قدر کرنی چاہئے اور اچھے مستقبل کی امید رکھنی چاہئے۔ پریس سیکریٹری ایم .فلاحیؔ

قرآن مجید کی آیات حذف یا اضافہ نہیں کی جا سکتی - ضیاء الدین صدیقی (معتمد عمومی،وحدت اسلامی)

قرآن مجید اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ اسےنہ بدلاجا سکتا ہے اور نہ اس میں حذف و اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کو سمجھنا،عمل کر نا اور دوسروں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے قبل اس کو اللہ کا کلام سمجھنااور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔وسیم رضوی جیسے موقع پرست افراد کے لئے ہو سکتا ہے یہ مذاق ہو لیکن اہل ایمان اپنا مستقل عقیدہ رکھتے ہیں۔ باطل وطاغوتی قوتیں ہمیشہ متفق علیہ چیزوں کو انتشار کا رخ دیتی ہیں۔ وسیم رضوی کی حرکت اسی قبیل سے ہے۔ 26 آیات کو ملک کی بڑی عدالت میں چیلنج کرنا کسی ایمان والے کا عمل نہیں ہوسکتا۔ہمیں علماء اہل تشیع سے مل کر وسیم رضوی کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا چاہیے۔ بابری مسجد پر بھی وسیم رضوی کا اسٹینڈ سرکاری موقف کے ساتھ تھا۔جبکہ شیعہ علماء نے اس کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ فقہ جعفریہ میں مسجد کو منتقل کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود وسیم رضوی جو شیعہ ہے اس کے خلاف بیانات دیے گئے تھے۔طلاق ثلاثہ کے موقع پر بھی شیعہ علماء نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ساتھ دیا تھا باوجود اس کے کہ ایک وقت کی تین طلاق کو فقہ جعفریہ میں ایک ہی تسلیم کیا جاتاہے۔صحابہ اور صحابیات کی شان اقدس میں گستاخی کے مرتکب کو امام خامنائی جو موجودہ ولایت فقہی کے منصب پر ہیں،مسلمان نہیں سمجھتے اور سنیوں کی رائے سے متفق ہیں۔ قرآن مجید تو مسلمانوں کے تمام فرقوں،مسالک و مشارب،جماعتوں و تنظیموں اور اداروں و خانقاہوں میں متفق علیہ ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔محمد رسول اللہ ﷺکے قلب اطہر پر نازل ہوا ہے۔یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم تمام انسانوں کو مخاطب کرتا ہے۔گویا یہ تمام انسانیت کی میراث ہے۔اس میں حذف اضافہ یا تبدیلی ممکن نہیں ہے۔آج جو قرآن مجید ہمارے پاس ہے اس کا مواد من و عن محمد رسول اللہ ﷺپر نازل شدہ ہے۔کوئی اپنے دماغ وعقل سے اسے سمجھنے کے لیے غور وفکر اور تدبر تو کر سکتا ہے لیکن اس کا انکار نہیں کر سکتا چہ جائے کہ اسے عدالتوں کی چوکھٹوں پر رسوا کیا جائے۔ مسلمان شیعہ علماء اکرام سے درخواست کریں کہ دریدہ دہن وسیم رضوی کو خارج از اسلام قرار دیا جائے۔عدالت عظمی کو یہ پیغام دیں کہ یہ تمہارے دائرے کار میں نہیں آتا ہے کہ قرآن کی آیات کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ اگر عدالت وسیم رضوی کی درخواست کو سنوائی کے لئے قبول کرتی ہے تو یہ مان لینا چاہیے کہ حکومت اور عدالت کی نیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور مسلمانوں اور اسلام وشعائر اسلام کے تعلق سے آئندہ ان کی کیا پالیسیاں ہو سکتی ہیں۔ میرے خیال میں قرآن خود حکومت،عدالت اور دریدہ دہن سمیت اہل ایمان کے لیے حجت بننے جارہا ہے۔آئندہ کے لائحہ عمل کو بنانے اور اس کے لیے جد وجہد کرنے کے لیے موجودہ ماحول اپنے اندر ایک واضح علامت رکھتا ہے۔ ہمیں اللہ کے کلام سے جڑنے اور اس سے استفادہ کرنے کی بڑے پیمانے پر سعی و جہد کرنی چاہیے۔ بچوں، جوانوں، خواتین اور مردوں کے لیے ناظرہ قرآن سے لے کرتجوید سے لے کر ترجمہ اور ترجمہ سے لے کر تفاسیر تک سمجھنے و سیکھنے کا ماحول بنانا چاہیے۔قرآن کی زبان کو سیکھنے سمجھنے کا نظم کرنا چاہیے۔اس پر عمل کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔

م کسانوں کے ساتھ ہیں۔ (وحدت اسلامی)

بمبئی : وحدت اسلامی کے معتمد عمومی ضیاء الدین صدیقی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ ہیں اور ہمارا بھی یہ مطالبہ ہے کہ کسان مخالف زرعی قوانین کو حکومت واپس لے لیں۔‘‘ شدید سردی میں اپنے گھروں سے باہر سڑک پر احتجاج کرنے والے کسانوں کی مانگ کو اہمیت نہ دے کر اسے ٹالنے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے ۔حکومت کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فی زمانہ حکومتیں عوام کی مرضی اور ان کی رائے سے چل رہی ہیں ،عوامی رائے کو یک لخت نظرانداز کر دینا سوائے انا پرستی کے کچھ نہیں اور حکومت کو اپنی اجتماعی انا سے باز آنا چاہیے ۔یہ دور ہٹلر ،مسولینی یا جنرل ڈائر کا دور نہیں ہے ‘‘ بلکہ عوام کی مرضیات اور افہام و تفہیم کا دور ہے ۔کسانوں سے نتیجہ خیز بات چیت کو پسند کیا جا سکتا ہے لیکن انھیں عدالتوں کی طرح ’’تاریخ پر تاریخ‘‘ دیتے رہنے سے ملک میں انارکی و تاریکی نہ پیدا ہو جائے جس کا شدید اندیشہ ہے۔ کسانوں سے مفاہمت نہ ہونے پر ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر کسانوں کی مان لی جائے اور قوانین واپس ہو جائے تو اس سے قبل کے CAA، NRCاور NPR سے متعلق معاملات پر بھی حکومت کو اپنی مرضی واپس لینی ہوگی ،اس شدید خوف نے حکومت کو کسانوں سے سوتیلا سلوک اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ شاہین باغ کی کامیاب سعی و جہد پر دہلی فسادات کروا کر پانی پھیر دیا گیا تھا جو کسر رہ گئی اسے کرونا وائرس نے پوری کر دی اورحکومت اپنی مرضی تھوپنے میں کامیاب ہو گئی ،لیکن کسانوں کے سلسلے میں ایسی کوئی حرکت جو انہیں اپنے مقصد سے دور کردے ارباب اقتدار کو اپنانے میں تھوڑی بہت شرم محسوس ہوگی ۔ ساری اپوزیشن اور ملک کا کسان ،اقلیتی اقوام بالخصوص مسلمان کسانوں کے مطالبات کے ساتھ ہیں اور ان کے ملک گیر احتجاج ، ریاستوں میں ہونے والے احتجاج ،ضلعی صدر مقام پر ہونے والے احتجاجات میںکندھےسے کندھا ملا کر اورقدم سے قدم ملا کر ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔ وحدت اسلامی کے معتمد عمومی (سیکریٹری جنرل )ضیاء الدین صدیقی نے عوام الناس سے اوربالخصوص مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ ’’وہ کسانوں کے مطالبات کا ساتھ دیں اور اس میں شامل ہوں ۔‘‘ پریس سیکریٹری ایم.فلاحیؔ

ایک صاحب فکر خادم دین کی رحلت - ڈاکٹر محمد رفعت صاحب (دہلی) کا انتقال پر ملال

آج صبح 9 بجے عزیز گرامی محمد جمیل صدیقی (لکھنؤ) نے بذریعہ فون یہ افسوسناک خبر سنائی کہ مکرمی جناب ڈاکٹر محمد رفعت صاحب (دہلی) کا رات تقریباً ساڑھے دس بجے انتقال ہوگیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) ڈاکٹر محمد رفعت صاحب سے ربط و تعلق کا سلسلہ ایک لمبی مدت پر محیط ہے۔ زمانہ طالب علمی میں وہ طلبہ و نوجوانوں کی تحریک ایس آئی ایم کے صدر رہے۔ اپنے علمی ذوق، متانت اور سنجیدہ مزاجی کی بنا پر بہت جلد ہی صرف طلباء تحریک ہی نہیں بلکہ پورے تحریکی حلقے میں متعارف ہوتے چلے گئے۔ تعلیمی لحاظ سے ملک کے مشہور ادارے "آئی آئی ٹی کانپور" سے پی ایچ ڈی کیا اور وہاں کے ذہین ترین فارغین میں شمار کئے جاتے رہے۔ بعدازاں جامعہ ملیہ میں استاد ہو گئے اور وہیں سے پروفیسر ہو کر ریٹائر ہوئے۔ تحریک کی اساسی فکر کے ایک مضبوط امین رہے، جماعت اسلامی دہلی و ہریانہ کے امیر حلقہ رہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے اور ایک عرصے تک ماہنامہ "زندگی نو" کے مدیر اعزازی بھی رہے۔ اس دوران کئی موضوعات پر ان کے فکر انگیز مضامین شائع ہوئے، طلباء تحریک کے پس منظر اور جامعہ ملیہ کے ایک معروف و مقبول استاذ اور جماعت اسلامی ہند کی مختلف ذمہ داریوں کے حوالے پورے ملک میں ان کے چاہنے والوں کی ایک معتدبہ تعداد ہے، جس کا اندازہ کئی بار ملکی سطح کے دورے کے موقع پر ہوتا رہا۔ ملک میں تحریکی و ملی شخصیات میں وہ چند ایسے افراد میں سے تھے جنہیں حالات کے نشیب و فراز کا گہرا ادراک تھا اور ان معاملات میں وہ پورے شعور، توازن اور تواضع کے ساتھ اپنی رائے رکھتے تھے۔ آج جب کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہ گئے تو لگتا ہے کہ شاید ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہم انہیں خاطر خواہ کام کرنے کے مواقع فراہم نہ کر سکے۔ وہ بے حد مخلص اور سادہ مزاج انسان تھے، طرز زندگی بھی سادہ و قلندرانہ تھی۔ اللہ رب العزت ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور اپنے یہاں ان کو رفعت و قبولیت سے نوازے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ، بیٹے، بیٹیاں سب کو صبر جمیل کی توفیق اور سکون عطا فرمائے۔ شریک غم عطاء الرحمن وجدیؔ

سینٹرل وسٹا کے بجائے تعلیم و صحت پر دھیان دیں! -وحدت اسلامی

بمبئی:کل ہند تنظیم وحدت اسلامی کے سیکریٹری جنرل ضیاءالدین صدیقی نے پریس نوٹ میں کہا کہ مرکزی حکومت سینٹرل وسٹا(پارلمنٹ کی جدید عمارت)پر خرچ کرنے ہونے والے 20ہزارکروڑ کی خطیر رقم کو عوامی صحت و تعلیم پر خرچ کرے یہ زیادہ مناسب ہے۔بجٹ کا بہت کم فیصد تعلیم و صحت پر خرچ ہوتا ہے جب کہ ہمارا معیار تعلیم بین الاقوامی پیمانے پر پورانہیں اترتا ہے۔ایسی ہی شعبہ صحت کی صورت حال ہے،کورونا وائرس سے مقابلے کے لیے ہمیں وینٹی لیٹر کی شدید کمی محسوس ہوئی اور اب بھی ہے۔ سینٹر وسٹا پر 20000 کروڑ خرچ کرنے کے بجائے بھارتی عوام کو تعلیم و صحت میں معیاری تعاون کی ضرورت ہے۔جب کہ ان غریب عوام کے ذریعہ چنے جانے والے عوامی نمائندوں کے لیے موجودہ پارلیمنٹ ہاؤس کافی ہے۔موجودہ حکومت نے اپنے فیصلہ پر عدالتی مہر بھی ثبت کروا لی ہے۔ویسے بھی ملک سے جڑے شعبہ جات پر حکومت اپنی مرضی کو تھوپ کر من مانی فیصلے کروا رہی ہے جس کی مثال ماضی کے ساتھ حالیہ فیصلہ بھی ہے۔ملک کی GDPکا حال تاریخ کا سب سے اندھیر دور ہے لیکن سینٹرل وسٹا پر اربوں پھونکنے کی تیاری ہے۔ خبر رساں ذرائع کی ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ نئی عمارت سے بھارت کے ہندو راشٹر کی شروعات ہے۔نئی عمارت کے افتتاح کے لیے فاونڈیشن اسٹون کی رسم کے ساتھ ملک میں بلا اعلان بی جے پی نے اپنے ہندو راشٹر کے مقصد کی شروعات کردی ہے۔اگر ایسا ہے تو ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اس کا نوٹس لینا ضروری ہوگا۔ماضی میں منوسمرتی کے تمام مظلومین سے ملکر اس جدید فسطائت کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ پریس سیکریٹری ایم۔ فلاحیؔ

کسانوں کے ساتھ مسلمانوں کو چلنا چاہئے۔ وحدت اسلامی

ممبئی: کل ہند تنظیم وحدت اسلامی کے معتمدِ عمومی (سکریٹری جنرل ضیاءالدین صدیقی) نے اپنی ایک پریس نوٹ میں کہا ہے کہ ’’گذشتہ ۴۰؍دنوں سے جاری کسانوں کے احتجاج میں اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوں۔ ضیاءالدین صدیقی نے مزید کہا کہ ’’یہ بہری گونگی حکومت نہ کچھ سن رہی ہے اور نہ کچھ بول رہی ہے ہٹلر اور مسولینی جیسے رویے کو اپنائے ہوئے ہیں جبکہ عوامی رائے ایک طرف ہے۔ کسانوں کی لڑائی اس حکومت سے آخری لڑائی ہے۔دیگرسیاسی پارٹیوں کی اپوزیشن تقریبا ختم ہو چکی ہے ۔ میدان بی جی پی کے لیے خالی کر دیا گیا ہے ، اور جو مخالفت ہو رہی ہے اس میں کوئی دم ہے اور دل کی آمدگی کی ہے۔ اگر کسان یہ احتجاجی لڑائی ہار جاتے ہے تو فرقہ پرستوں کا ہاتھ پکڑنے کی قوت اب کسی میں نہیں رہے گی اور مرکزی حکومت من مانی کرتی رہےگی۔ CAA, NRC, NPR پر مسلمانوں نے انصاف پسندوں کے ساتھ مرکزی حکومت کو دفاع میں لانے کی کوشش کی تھی لیکن دہلی فساد کروا کر اور اور لاک ڈ اؤن کا فائدہ اٹھا کر اس احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک سال کی بعد اس کی یاد کرنے نکلی کینڈل ریلی پر بھی پولیس کا قہر تھما نہیں بلکہ انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا اور عورتوں کو سلاخوں کے پیچھے رات گزارنی پڑی۔ ان دو عظیم احتجاجوں کو اب ایک ہو کر اپنی قوت کا اظہار کرنا چاہیے ۔انصاف پسند آج بھی ہر صحیح بات کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے ۔کسانوں کے جن کو حکومت بوتل میں اتر لے جاتی ہے تو CAA, NRC, NPR کے نفاذ پر کوئی اٹھنے کی طاقت نہ رکھے گا ۔اس لئے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ مسلم جماعتوں ،تنظیموں ،اداروں اور انصاف پسند شہریوں سے وحدت اسلامی نے اپیل کی ہے کہ وہ کسانوں کے احتجاج میں شامل ہیں شریک ہوکر کالے قوانین کے خلاف اپنی قوت کا اظہار کریں۔ پریس سیکریٹری ایم۔ فلاحیؔ

ایم پی میں جنگل راج چل رہا ہے۔

ملزموں کو پکڑنے کے بجائے مظلومین کے گھروں کو مسمار کرنا، پولیس کے سامنے غنڈہ گردی کرتے ہوئے مسجد کو توڑنے کی کوشش ہر دو واقعات کی وحدت اسلامی ہند کی جانب سے سخت مذمت کی گئی۔ کل ہندتنظیم ’’وحدت اسلامی ‘‘کے امیر مولانا عطاء الرحمن وجدی ؔنے اپنے ایک پریس نوٹ کے ذریعے مدھیہ پردیش میں ہورہے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے ان دونوں واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مولانا وجدی ؔنے ’’اجین ‘‘میں رام مندر کے لیے چندہ جمع کرنے والی ریلی پر پتھراؤ کی مذمت کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’اس کا بہانہ بنا کر کسی گھر کو مسمار کر دینا یہ کون سا قانون ہے اور یہ کس دستور و آئین کے مطابق کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح اندور کے ایک گاؤں میں پولیس کی موجودگی میں شرپسند مسجد کے مینار کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ قانون کی حفاظت کرنے والوں کے سامنے ہی قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہو تو ایسی نکمی پولیس سے کیا خیر کی امید کی جاسکتی ہے۔ ان دو واقعات پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا وجدیؔ نے فرمایا کہ یہ مدھیہ پردیش میں قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ جنگل راج چل رہا ہے جس کی مثال کم از کم یہ دو واقعات ہے ۔مسلمانوں کی جماعتوں اور تنظیموں سے مولانا وجدیؔ نے اپیل کی ہے کہ وہ حالات کا نوٹس لیںاور مل جل کر اتحاد و اتفاق کے ساتھ ان معاملات کا مقابلہ کریں۔ پریس سیکریٹری ایم۔ فلاحیؔ

وقتی حیثیت بدلنے سے مساجد کی شرعی حیثیت نہیں بدلتی۔ -وحدت اسلامی

بمبئی:امیر وحدت اسلامی ہند حضرت مولانا عطاء الرحمن وجدیؔ نے حکومت کے 5/اگست 2020ایودھیاپروگرام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں مساجد کی تعمیر اصول وضابطوں کی بنیاد پر ہوتی ہے اگر کوئی انہیں نظر انداز کرتا ہے تو وہ مساجد نہیں کہلاسکتی۔موصوف نے مزید کہا کہ اس کے برخلاف مساجد کو مسمار کرکے انہیں وقتی طور پر جو بھی حیثیت دے دی جائے اس سے شرعی موقف تبدیل نہیں ہوتا۔وہ مسجد ہی باقی رہتی ہے۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے صرف آستھا کی بنیاد پر بابری مسجد کو یہاں کی اکثریت کے حوالے کردیاملک کا قانون اور تاریخی ادوار کے اتار چڑھاؤ کے مطابق یہ انصاف نہ تھا۔1949ء میں مورتیوں کو لاکر مسجد میں رکھا گیا اسے کورٹ نے جرم قرار دیا ہے۔1992 میں کارسیوکوں نے بابری مسجد مسمار کردی اس پر بھی سپریم کورٹ کا مشاہدہ یہ تھا کہ وہ جرم ہے جو کیا گیا۔لیکن مورتیاں خلاف قانون رکھی گئیں اسی کے پیروکار کو مسجد سمیت ساری آراضی سونپ دی گئی اور شہادت بابری مسجد کے جو مجرم تھے انہیں ٹرسٹ بنانے اور مندر کی تعمیر کا کام سونپاگیا۔گویا مسلمانوں کے ساتھ بڑی ناانصافی کی گئی وہ بھی قانون کو ہاتھ میں لےکر۔ اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا محترم نے کہا کہ حکومت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ عبادت گاہوں کی تعمیر اور اس کا افتتاح کرتے گھومتے رہیں بلکہ ملک کی جو اشد ضرورتیں ہیں اس پر دھیان دیں۔اس وقت ملک عالمی دباؤسے گزررہا ہے۔اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے ارباب اقتدار بابری مسجد کی مسماری کے چند مجرمین کو لےکر اس کی جگہ مندر کا افتتاح کرنے اکھٹا ہورہے ہیں۔دنیا کو گھروں میں قفل بند کر رکھا ہے اور خود ’’دھرماتما ‘‘بنے ’’پُن ّ‘‘ سمیٹ رہے ہیں۔ مولانا نے دوبارہ بابری مسجد پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا جو موقف ہے کہ بابری مسجد،مسجد تھی،ہے اور ان شاء اللہ مسجد رہے گی یہی ہمارا موقف ہے ۔وقتی حیثیت کی تبدیلی مساجد کی شرعی حیثیت کو بدل نہیں سکتی اس کا علم سب کو ہونا چاہیے۔‘‘ والسلام ایم فلاحی ؔ (پریس سیکریٹری)

علامتی قربانی بے معنی ہے - وحدت اسلامی

بمبئی:وحدت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل ضیاء الدین صدیقی کے بیانیہ پریس نوٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ مہاراشٹر اور وزیر داخلہ مہاراشٹر نے قربانی کے لیے جو رہنمانیہ جاری کیا ہے اس میں لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سادگی سے عید منائیں،علامتی قربانی دیں۔موصوف نے واضح الفاظ میں کہا کہ علامتی قربانی بے معنی ہے۔ایسی کسی بھی قسم کی قربانی کا انہوں نے انکار کیا ہے جو علامتی کہلاتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے چلتے بازار،کاروبار،اسکول و کالج،سرکاری دفاتر بند ہیں، وہیں پر عبادت گاہوں کو بھی 31/جولائی تک بند کیا گیا ہے۔لیکن کورونا کے مریضوں کی تشویشناک حد تک اضافےنے حکومت کو مزید اقدامات کرنے پر مجبور کردیا ہے۔قربانی کے جانوروں کو آن لائن خرید نے کا فرمان جاری کیا گیا ہے ”آن لائن بکرا“عمر شریف کے کسی کامیڈی شو کا عنوان تو ہوسکتا ہے لیکن ہزاروں ہزار جانوروں کی خرید و فروخت آن لائن کرنے کے لیے باضابطہ تربیت کی ضرورت ہے جس کا ابھی کوئی موقع نہیں ہے۔ حکومت جانوروں کی چھوٹی چھوٹی منڈیاں لگانے کی اجازت دے،جن میں خرید و فروخت کے درمیان احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جائے۔قربانی کرتے وکراتے وقت بھی سماجی فاصلے کا خیال رکھا جائے۔مندر کو یاتراؤں کی اجازت مل سکتی ہے تو مساجد میں نماز کیوں نہیں ہوسکتی؟ان امور پر توجہ دینے کی ضیاء الدین صدیقی نے اپیل کی ہے۔ بقر عید میں قربانی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑکی اس سنت کی تعبیر ہے کہ جس میں اپنے رب کے لیے سب کچھ نثار کیا جاسکتا ہے یہاں تک کہ اپنی اولاد کوبھی نذر کیا جاسکتا ہے۔آج ہم اس جانور کو اپنے رب کے لیے قربان کررہے ہیں کل ضرورت پڑی تو اسی طرح اپنی جان و مال بھی قربان کر سکتے ہیں۔اسی عزم کا ہم اظہار کرتے ہیں۔ یہ قربانی ہے ،اہل علم کسی بھی علامتی قربانی کے حق میں نہیں ہے۔اس لیے حکومت مہاراشٹر کا فرمان علامتی قربانی بے معنی ہے،ہر صاحب استطاعت کو جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔اس کا کوئی بدل و علامت نہیں ہے۔ پریس سکریٹری ایم فلاحی

حیدر آباد کی دو مساجد کی شہادت مجرمانہ عمل ہے(وحدت اسلامی)

بمبئی:وحدت اسلامی ہند کے ایک پریس نوٹ کے مطابق سکریٹری جنرل ضیاء الدین صدیقی نے حالیہ حیدر آباد میں شہید کی جانے والی دو مساجد کے سلسلے میں حکومت تلنگانہ کی سخت مذمت کی ہے۔ایک بیان میں آپ نے کہا ہے کہ مسجد ہاشمی اور مسجد دفاتر دونوں مساجد قدیم تھیں جس کو حکومت تلنگانہ نے شہید کردیا۔وقف بورڈ کے مطابق ان کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔عبادت گاہوں کے قانون کے مطابق 15/اگست 1947کو جو عبادت گاہیں جیسی تھیں وہ ویسی ہی مانی جائے گی،اس قانون کے خلاف حکومت تلنگانہ نے کام کیا ہے اس لیے مجرم ہے۔ حکومت تلنگانہ خود ان مساجد کو ان کی بنیادوں پر تعمیر کرے اور ان کی شہادت پر عوام الناس سے معافی مانگیں وحدت اسلامی ہند نے یہ مطالبہ کیا ہے۔مساجد کو شہید کرکے دوسری جگہ بنانے کے منصوبہ کی بھی وحدت اسلامی نے مذ مت کی ہے جو مساجد جہاں تھیں وہیں ان کی تعمیر کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تلنگانہ کیKRCحکومت کو مسلمانوں کا سچا دوست سمجھاجاتا تھا،مسلمانوں کے ائمہ وعلماء و سیاسی و ملی قائدین سب مل کر اس کی تائید کرتے رہے اور انعام میں ریاستی حکومت نے انہیں بابری مسجد کا”ری پلے“ عطا کیا۔حیدرآباد کے علماء و ائمہ،سیاسی و ملی قائدین کا امتحان ہے کہ وہ اس حکومت سے مساجد کی دوبارہ تعمیر کیسے کرواتے ہیں۔جب کہ اس حکومت کے لیے ووٹوں کی اپیل وہ کر چکے ہیں۔ پریس سکریٹری ایم فلاحی

نبی کریمﷺ پر فلم ناقابل برداشت(وحدت اسلامی)

بمبئی:وحدت اسلامی ہند کے ایک پریس نوٹ کے مطابق امیر وحدت اسلامی ہند مولانا عطاء الرحمن وجدی نے اپنے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ مسلمانان عالم کے لیے پیغمبر اسلام کا مقام ایمان سے تعلق رکھتا ہے۔مسلمان اپنے نبیﷺ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔اسلاموفوبیا سے متاثرین آئے دن ایسی حرکات کرتے رہتے ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری مقصود ہوتی ہے۔ابھی ایک فلم”محمد دی مسنجر آف گاڈ“بنائی گئی جس کی ساری دنیا نے مخالفت کی۔بھارت میں وہی فلم ہندی میں ڈب ہوکر ریلیز ہونے والی ہے۔اس پر وحدت اسلامی ہند نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ایسے تمام لوگوں کوجو اس قماش کی سوچ رکھتے ہیں متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اوقات میں رہیں کسی کے مذہبی معاملات کو اچھال کر وجھوٹ بول کر بڑے بننے کی کوشش نہ کریں۔حکومت سے وحدت اسلامی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس فلم کو ریلیز نہ کیا جائے۔اگر یہ فلم ریلیز ہوتی ہے تو لا اینڈ آڈرکا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔ مسلمانوں سے وحدت اسلامی نے اپیل کی ہے کہ صبر و ضبط کا مطاہرہ کریں ان شاء اللہ گستاخانِ رسالت مآبﷺ اپنے منشا کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ ذات اقدس پر کوئی حرف نہ آئے گا۔ہمیں اپنی نبی ﷺکی اتباع کرنی چاہیے اور اس کردار کو زندگی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔نیز محمدﷺ کی زندگی کو برادران وطن تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ عظیم شخصیت کا انہیں بھی تعارف ہوسکے۔ پریس سکریٹری ایم فلاحی

مارکٹ کھل رہا ہے تو مساجد بھی کھلنی چاہیے (وحدت اسلامی)

بمبئی:وحدت اسلامی کے معتمد عمومی ضیاء الدین صدیقی کے پریس سیکریٹری کے مطابق مارکیٹ کھولنے کو لیکر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مارکیٹ جہاں کھولا جارہا ہے وہاں مساجد بند نہیں رہ سکتی ۔انہیں بھی کھولنا چاہیے۔ضروری اشیاء کے علاوہ مارکیٹ کے کھولنے کے اشارے حکومت کی جانب سے مل رہے ہیں بعض تاجر حضرات رمضان اور عید کے بازار کو لیکر اپنی دلچسپی دکھلا رہے ہیں ۔وحدت اسلامی نے اس پر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے یہ دو مہینوں میں جتنی کوششوں سے کورونا کا مقابلہ کیا گیا وہ عام مارکیٹ کے کھلتے ہی بے نتیجہ ثابت ہوگی۔گاہکوں کی بھیڑ اور خریداروں کے رش کی وجہ سے طبعی دوری کی احتیاطی تدابیر بے معنی ہوکر رہ جائے گی اور Covide-19 کو پھیلنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔حکومت شراب کی دکانیں کھول کر دیکھ چکی ہے احتیاطی تدابیر کی کس قدر دھجیاں اڑائی گئی تھیں۔اس لیے عید بازار اور عام مارکیٹ کو کھولا نہ جائے اور اگر حکومت فیصلہ کر چکی ہے تو مساجد بھی بند نہیں رہ سکتی انہیں کھلنا چاہیے تاکہ رمضان جیسے مہینے کی معتبر عبادتیں لوگ ادا کرسکیں۔وحدت اسلامی کے معتمد عمومی نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ عید سادگی سے منائیں اور خریداری ومارکیٹنگ سے بچے ہوئے پیسوں سے ضرورت مندوں ومعاشی پسماندہ خاندانوں کی مدد کریں۔رمضان میں یہ عمل وقت کی ضرورت کے اعتبار سے ترجیحی بنیادوں پر اختیار کیا جانا چاہیے ۔اپنے رشتہ داروں وپڑوسیوں کا خصوصی خیال رکھیں اور ان کی ضرورتوں سے آگاہ رہیں۔خدمت خلق (حقوق العباد)کا مذہب وملت سے اوپر اٹھکر انسانی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔آخر میں موصوف نے ان لوگوں کی جان مال اور عزت وآبرو کی حفاظت اور اس میں اضافے کے لیے دعا کی جو مستقل ان کار خیر کے کاموں و سرگرمیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایم فلاحی پریس سکریٹری

تبلیغی جماعت سمیت مسلمانوں کو بدنام نہ کیا جائے - وحدت اسلامی ہند

وحدت اسلامی ہند کے پریس نوٹ کے مطابق حالیہ میڈیا کے ذریعہ تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے اور اس پر پابندی کی باتیں کی جارہی ہیں۔اس پر وحدت اسلامی نے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ لاک ڈاؤن ہونے سے قبل ہی مرکز نظام الدین نے اپنے یہاں لوگوں کی تعداد و علاقے سے حکومت کو مطلع کردیا تھا۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ لوگ مرکز نظام الدین میں ہی رہ گئے۔تمل ناڈو کے ایک صاحب کی موت واقع ہوئی وہ طبعی موت سے جاں بحق ہوئے لیکن اس کو بہانا بنا کر سارے لوگوں کو کورنٹائن کردیا گیا ہے۔ یہ سب کام صحت عامہ کے شعبہ اور مرکز نظام الدین کے آپسی تال میل سے ہورہا ہے۔اس کو ہوّا بنا کر میڈیا اور دہلی حکومت نے واویلا مچا دیا ہے۔ دراصل کورونا وائرس میں بھی موجودہ حکومت ومیڈیا ہندو مسلم اجزاء تلاش کررہی ہے۔کچھ دن قبل کورونا وائرس کی تصویر پٹھانی لباس میں دکھلائی گئی گویا یہ وائرس مسلمان ہے!اور اب تبلیغی مرکز کو لے کر اس کو بدنام کیا جارہا ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو احتیاطی تدابیر کے اعلان کے بعد دو روز ملک کی پارلیمنٹ کیوں چلائی گئی۔ ۲۲/مارچ اتوار کو ایودھیا میں یوگی اور ان کے بھگت کیا کررہے تھے،ویشنو دیوی میں پھنسے ہوئے یاتری کیا بیماری کا سبب نہیں بن سکتے۔مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کا حلف لینا اور اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنا کیا کورونا کو دعوت نہیں دیتا۔دہلی کی سرحد پر بہار،بنگال اور یو پی جانے والے ہزار ہا ہزار مزدور وں کی بھیڑ۔کس کو ذمہ دار بنائیں گے آپ؟ وحدت اسلامی ایسے وقت میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ہے اور حکومت کی ہر منفی کاروائی کی مذمت کرتی ہے۔مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ ایسے حالات میں کسی جماعت تو کیا کسی فرد کو بھی اکیلا نہ چھوڑیں سب کی پشت پناہی کرتے رہیں۔کیوں کہ کورونا کی آڑ میں کہیں ہماری اجتماعیتیں ٹارگیٹ نہ کی جارہی ہوں اور ہمیں حالات کی نزاکت میں اس کا احساس ہی نہ رہے۔ ضیاء الدین صدیقی معتمد عمومی وحدت اسلامی ہند

We Condemn NRC and Religion Biased Citizenship Amendment Bill (CAB)

Maulana Ataur RahmanWajdi, Ameer Wahdat-e-Islami Hind condemned the recent CAB (Citizenship Amendment Bill) which was passed in Lok-Sabha and said that, “The Bill should be opposed due to its biasness towards one religion and social inequality. In the past only during Hitler’s reign the citizenship was decided based on religion and India is the second country to follow his footsteps”. He added, “it should be noted that Hitler believed in Fascism but the question is whether India is governed by the disciples of same ideology”. Maulana Wajdi stressed that, “India is struggling with its economy which is turning bad to worse and big banks are facing bankruptcy. Among the SAARC nations our GDP is declining consistently and currently our GDP is behind Sri Lanka and Pakistan. Instead of paying heed to these issues the present government is busy in depriving citizenship of its own nationals in the name of NRC and the current CAB should be seen in this context. No civilised nation deprives its own people of their citizenship but in the 21st Century India, based on the teachings of ‘Manu-Smriti’, is trying to expel its own citizens by imposing CAB and NRC”. Ameer Wahdat-e-Islami appealed to all citizens of India to oppose the NRC, CAB and all such bills and organise awareness programs in collaboration with all likeminded organisations and groups. He also highlighted that, “the recent one after another decisions of current government show that the band of leaders in the government are behaving as Pharos (Firaun) and targeting a specific community by oppressing them and making them helpless, but such political terrorism may backfire, as such inane acts will not be able to intimidate the 25 crore Ummah”. The contemporary Indian government with reference to minorities and especiallyagainst Muslims iscreating such a situation where disruption of peace and harmony is only the end and if this happens the onus of responsibility will be on the government and the current rulers. Press Secretary

این آر سی اور مذہبی تفریق پر مبنی شہریت ترمیمی بل کی مخالفت کی جائے۔

این آر سی اور مذہبی تفریق پر مبنی شہریت ترمیمی بل کی مخالفت کی جائے۔ (مولانا عطاالرحمن وجدیؔ، امیر وحدت اسلامی ہند ) وحدت اسلامی ہند کے امیر مولانا عطاالرحمن وجدیؔ نے حالیہ شہریت ترمیمی بل CABپر اظہار خیال فرماتے ہوئے کہا کہ ’’اس بل کی مخالفت کی جانی چاہئے، کیونکہ یہ بل مذہبی تفریق وسماجی امتیاز پر مبنی ہے ۔‘‘ انہوںنے کہا کہ ’’دنیا میں ہٹلر کے زمانے میں ہی مذہب کو بنیاد بنا کر شہریت کا تصور دیا گیا تھا۔ شاید بھارت دوسرا ملک ہے جہاں مذہب کی بنیادپر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہٹلر فسطائی نظریات سے متاثر حکمراں تھا ،سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت انہی نظریات کے حامل لوگوں کا ہو گیا ہے؟‘‘ مولانا وجدی ؔنے فرمایا ’’ایک طرف ہندوستان کی معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ بڑےبڑے بینک ڈوب رہے ہیں۔ سارک (Sark)ممالک میں ہماری GDPدن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت ہماری GDPپاکستان اور سری لنکا سے بھی کم ہے۔ اس پر توجہ دینے کے بجائے NRCکے نام پر موجودہ سرکار اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی ٹھہرانے کی مذموم کوشش کر رہی ہے۔ اسی سے جوڑ کر شہریت ترمیمی بل (CAB)کو دیکھا جانا چاہیئے۔ کسی مہذب سماج میں اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی قرار نہیں دیا جاتا ۔ لیکن ۲۱ویںصدی کے بھارت میں ’’منو سمرتی ‘‘کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی قرار دینے کے لئے شہریت ترمیمی بل (CAB)اور (NRC)جیسے قوانین نافذ کئے جا رہے ہیں۔‘‘ امیر وحدت اسلامی ہند مولانا وجدیؔ نے تمام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ’’ NRCاور شہریت ترمیمی بل CABجیسے تمام قوانین کی پُر زور مخالفت کی جانی چاہئے۔ ہم خیال جماعتوں اور انجمنوں کوساتھ لے کر مشترکہ پروگرام رکھے جانے چاہئے۔‘‘ مولانا نے مزید توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ایک کے بعد ایک حکومت کے اقدامات سے پتا چلتا ہے کہ فرعون کی طرح موجودہ حکمران ٹولہ بس ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف اپنی چالبازیاں اختیار کئے ہوئے ہے اور انھیں دباکر بے بس کردینا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سیاسی دہشت گردی مہنگی بھی پڑسکتی ہے ۔یاد رہنا چاہئے کہ ایسے لچّراقدامات سے ۲۵ ؍کروڑ کی اُمت کو خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ حکومت اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایسی صورتِحال پیدا کرنا چاہتی ہے ۔جس سے امن و مان کی بربادی کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے ولانہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکی پوری ذمہ داری حکومت وقت اورموجودہ برسرِا قتدارپارٹی پر ہوگی۔ پریس سیکریٹری

ہم عدل و انصاف اور امن و امان چاہتے ہیں

نئی دہلی، وحدت اسلامی ہند کے پریس نوٹ کے مطابق امیر وحدت اسلامی ہند مولانا عطاء الرحمن وجدی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم ان حالات میں عدل و انصاف اور امن و امان چاہتے ہیں۔ وہ بابری مسجد فیصلے کے مضمرات پر گفتگو کررہے تھے۔ مولانا وجدی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ہماری طرف سے مقدمہ کی پیروی جس طرح ہوئی ہے اور ثبوت و دلائل سے جس طرح بات کہی گئی ہے اس سے ہمیں یہ توقع ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئیگا۔ ان شاء اللہ۔ ہمیں اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ہندوستان کے تمام شہریوں سے مولانا نے اپیل کی ہے کہ عدالت کے فیصلے پر صبر و تحمل کا اظہار کیا جائے۔ فریقین خوشی یا غصہ میں آپے سے باہر نہ ہوں اور ایسی کوئی حرکت نہیں ہونی چاہئے جو خلاف شریعت ہو ۔ مولانا نے شریعت کے تناظر میں اسلامی موقف کا بھی اعادہ کیا کہ جو مسجد ایک مرتبہ مسجد بنا دی جاتی ہے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے۔ اس لئے بابری مسجد مسجد تھی، مسجد ہے اور مسجد رہے گی۔ مسلمانوں کا یہ موقف شریعت اسلامیہ کی روشنی میں یاد رکھا جانا چاہئے۔ یہ بھی بھولنا نہیں چاہئے کہ فیصلے سے زیادہ موقف کی اہمیت ہوتی ہے۔ پریس سکریٹری

وحدت کا میڈیا اورینٹیشن ورکشاپ اورنگ آباد میں

اورنگ آباد___ موجودہ حالات میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ پرنٹ میڈیا‘ الیکڑونک میڈیا کے علاوہ شوشل میڈیا نے اب سے زیادہ اثر ڈالنا شروع کردیاہے۔ معلومات کا جہاں تک سوال ہے اور ان معلومات میں نقطۂ نظر کی اہمیت ہے اس نے ہر دو ذرائع ابلاغ کی قدر و قیمت کو بڑھا دیا ہے۔ وحدتِ اسلامی ہنداپنے کارکنان کو حالات کے چلتے ذرائع ابلاغ کی کروٹوں سے بھی روشناس رکھنا چاہتی ہے۔ اس کی اہمیت ضرورت اور استعمال کے لئے وہ ایسے ورکشاپ منعقد کرتی ہے جس سے کارکنان میں جدید ضرورتوں اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ جہاں ذرائع ابلاغ کے بارے میں بنیادی معلومات کو لیکر رہنمائی کی جائیگی وہیں اس کے بہتر استعمال جس سے سماج میں اقدار فروغ پائیں سمجھانے کی کوشش اور اس کے لئے تیاری کی عملی شکلوں کو اختیار کیسے کیا جاسکتاہے بتلایا جائیگا۔ اس ورکشاپ میں اخباروں اور ذرائع ابلاغ سے جڑے ہوئے معروف صحافیوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ جن سے رہنمائی حاصل کی جائیگی۔ اسی کے ساتھ وحدتِ اسلامی ہند کے مرکزی ذمّہ داران بھی اس میں شرکت فرمائینگے۔ معروف صحافی حضرات سے جو صحافت کے میدان میں لمبا تجربہ رکھتے ہیں ان سے خبریں کیسے بنتی ہیں‘ سوالات کیسے create کئے جاتے ہیں، اس کا جواب کتنا اور کیسے دیا جاتا ہے۔ صحافت کی تاریخ اور اس کے اثرات پر مشتمل عنوانات کو ورکشاپ کا حصّہ بنایا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو جہاں تعلیمی‘ معاشی‘ قانونی و سیاسی میدان کار میں اپنی صلاحیتوں کو منوانے کی ضرورت پر زور دیا جارہاہے ونہی ذرائع ابلاغ کے شعبہ میں بھی اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر وحدتِ اسلامی ہندکے ذمّہ داران نے اپنے منتخب کارکنان کو جو اس شعبہ میں دلچسپی رکھتے ہیں رہنمائی کے لئے ورکشاپ میں شرکت کے لئے مدعو کیا ہے۔ یہ ورکشاپ 23تا25 اگست 2019ئ؁ تین روزہ ہے۔ جس میں ماہرین سے استفادہ کیا جائیگا۔ ورکشاپ کی اطلاع وحدتِ اسلامی مہاراشٹر کے نقیب شیخ بسم اللہ نے دی۔ پریس سیکریٹری