Home ممبئی میں وحدت اسلامی کا سیمینار بعنوان " بابری مسجد فیصلہ - ایک جائزہ

ممبئی میں وحدت اسلامی کا سیمینار بعنوان " بابری مسجد فیصلہ - ایک جائزہ

by WahdatVision - Dec 05 -

 
ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں وحدت اسلامی (ممبئی یونٹ) کی جانب سے "بابری مسجد فیصلہ - ایک جائزہ" کے عنوان کے تحت سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا ۔
جناب کولسے پاٹل نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر رام یا رحیم کے حق میں نہ ہوتے ہوئے نیشنل مونومینٹ کے حق میں ھوتا تو سب کو قابلِ قبول ہوتا ۔ تمام ہندو برے نہیں ہے ، بلکہ چند منو وادی ہے جو ورن ویوستھا کا سسٹم لانا چاہتے ہیں ۔ ہم سب کا DNA ایک ہے جبکہ باہر سے آئے ہوئے برہمن ہے وہ باہر کے شہری ہیں ۔  حالیہ فیصلے کا بیس صرف منووادی ہے ۔ یہ نیائے نہیں ہے بلکہ صرف فیصلہ ہے ۔
 
 آپ اگر ان سے دوستی کرے تو بھی یہ آپ کو مارنے والے ہی ہے ، کیوں نہ ہم لڑ کر مرے ۔ 
 
یوسف مچھالہ صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ فیصلہ دراصل وہ مقدمہ ہے جو مسجد گرانے والوں کے حق میں ہوا ہے، اور مسجد گرانے والوں کی فتح ہے ۔ ہار ہمارے جسٹس سسٹم کی ہوئی ہے قانونی بھی اور اخلاقی بھی ۔ اس فیصلے میں صاف لکھا گیا ہے کہ 1528 کا جو ڈھانچہ تھا وہ مسجد تھی ، جسے 1992 میں ڈھایا گیا ۔  یہ وہی لوگ ہے جو آج مندر بنانے کے لئے ٹرسٹ بنا کر اجازت چاہ رہے ہیں ۔ آستھا کو بھی مان لیا جائے تو کورٹ کا یہ کہنا کہ 1857 تک وہاں نماز کا ثبوت نہیں ہے ، کتنی معصومانہ اور احمقانہ بات ہے ، کیا مساجد ڈیکوریشن کے لئے بنائی جاتی ہے ؟  ہم سپریم کورٹ کا دروازہ پھر کھٹکھٹا رہے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر غور کریں ۔ کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو خوش آمدید کیا صرف امن و شانتی کے لئے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مستقبل میں کئی جگہوں کی آگے آپ کو قربانی دینی پڑ سکتی ہے ۔ امن وامان بنائے رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ہم پر جو الزام تھا کہ ہم نے مندر توڑ کر مسجد بنائی وہ خود بخود منہدم ہو گیا اور سپریم کورٹ نے مانا کہ مسجد توڑ کر مندر بنایا جائے گا ۔ ہماری قانونی ہار ہوئی ہے مگر اخلاقی فتح ہماری ہی ہے ، ہمیں مایوس نہیں ہونا ہے ۔
 
جناب سلیم خان صاحب نے فرمایا کہ عدالت پر جو دباؤ ہوتا ہے اسے ہم نے اس فیصلہ میں محسوس کیا ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آبزرویشن کوئی اور کر رہا ہے اور فیصلہ کوئی اور لکھ رہا ہے ۔  سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ 1528 سے 1857 تک مسجد تھی مگر نماز کا ثبوت نہیں ہے ، ایسا ہی ہے کہ ٹرین تھانے اور ممبئی کے درمیان چلی مگر ڈرائیور کے بارے میں کوئی خبر نہیں ۔ مسجد کو ڈھانے والوں کے لئے سزا بھی ضروری ہے ، جس کے لئے ہمارے قائدین کو آخر تک لڑنا ہوگا ۔ آخری بڑی عدالت ابھی باقی ہے ،جہاں ظلم نہ ہوگا ، ان شاءاللہ ۔
 
جناب ضیاالدین صدیقی صاحب نے فرمایا کہ جن لوگوں نے مسجد توڑی ہے انھی لوگوں کو مندر کے ٹرسٹ میں شامل کیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہمارے جسموں پر تو نافذ ہو سکتا ہے مگر ہمارے دلوں پر نہیں ۔ سپریم کورٹ خود بابری مسجد کی عدالت میں کھڑی ہے ۔ مغلوں ، اودھ اور برٹش حکومتوں کے اخراجات کے گوشوارے موجود ہیں ، مسلمانوں کو کسی ثبوت کے دینے کی  ضرورت نہیں ۔ ہم نے اس فیصلے کو برداشت کیا اور لا اینڈ آرڈر کو ملحوظ رکھا اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری خاموشی کا امتحان لیا جائے ۔ رام للا کو ہم نے تسلیم کیا یہ ہماری غلطی رہی ۔ سولہویں صدی تک ایودھیا کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا تو ہم نے اس کے وجود کو تسلیم ہی کیوں کیا ؟؟ ہم نے تاریخ میں اگر غلطی کی ہے تو ہم نے اس سے رجوع بھی کیا ہے ۔
 
صدارتی گفتگو میں مولانا ابو ظفر ندوی صاحب نے فرمایا کہ آپ یہ کیوں یہ سمجھتے ہےکہ یہ آخری فیصلہ ہے، تاریخ میں غلطياں ہوتی ہے مگر تاریخ اپنی اصلاح بھی کرتی ہے ۔ لوٹ و غنڈہ گردی چند لوگ کرتے ہیں مگر لاکھوں شرفاء کہاں غائب رہتے ہیں ۔ بابری مسجد نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے ۔ یہ فیصلہ انسانیت کی توہین ہے ۔  بڑی بڑی تہذیبیں آئی اور ختم ہوگئی ۔ کسی چیز کو پانے کے لئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے ۔

 

Share:
Share Tweet Share