Campaign

IMG

قرآن مجید کی آیات حذف یا اضافہ نہیں کی جا سکتی

Campaign - Mar 16 2021
قرآن مجید اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ اسےنہ بدلاجا سکتا ہے اور نہ اس میں حذف و اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کو سمجھنا،عمل کر نا اور دوسروں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے قبل اس کو اللہ کا کلام سمجھنااور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔وسیم رضوی جیسے موقع پرست افراد کے لئے ہو سکتا ہے یہ مذاق ہو لیکن اہل ایمان اپنا مستقل عقیدہ رکھتے ہیں۔ باطل وطاغوتی قوتیں ہمیشہ متفق علیہ چیزوں کو انتشار کا رخ دیتی ہیں۔ وسیم رضوی کی حرکت اسی قبیل سے ہے۔ 26 آیات کو ملک کی بڑی عدالت میں چیلنج کرنا کسی ایمان والے کا عمل نہیں ہوسکتا۔ہمیں علماء اہل تشیع سے مل کر وسیم رضوی کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا چاہیے۔ 
بابری مسجد پر بھی وسیم رضوی کا اسٹینڈ سرکاری موقف کے ساتھ تھا۔جبکہ شیعہ علماء نے اس کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ فقہ جعفریہ میں مسجد کو منتقل کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود وسیم رضوی جو شیعہ ہے اس کے خلاف بیانات دیے گئے تھے۔طلاق ثلاثہ کے موقع پر بھی شیعہ علماء نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ساتھ دیا تھا باوجود اس کے کہ ایک وقت کی تین طلاق کو فقہ جعفریہ میں ایک ہی تسلیم کیا جاتاہے۔صحابہ  اور صحابیات کی شان اقدس میں گستاخی کے مرتکب کو امام خامنائی جو موجودہ ولایت فقہی کے منصب پر ہیں،مسلمان نہیں سمجھتے اور سنیوں کی رائے سے متفق ہیں۔
قرآن مجید تو مسلمانوں کے تمام فرقوں،مسالک و مشارب،جماعتوں و تنظیموں اور اداروں و خانقاہوں میں متفق علیہ ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔محمد رسول اللہ ﷺکے قلب اطہر پر نازل ہوا ہے۔یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم تمام انسانوں کو مخاطب کرتا ہے۔گویا یہ تمام انسانیت کی میراث ہے۔اس میں حذف اضافہ یا تبدیلی ممکن نہیں ہے۔آج جو قرآن مجید ہمارے پاس ہے اس کا مواد من و عن محمد رسول اللہ ﷺپر نازل شدہ ہے۔کوئی اپنے دماغ وعقل سے اسے سمجھنے کے لیے غور وفکر اور تدبر تو کر سکتا ہے لیکن اس کا انکار نہیں کر سکتا چہ جائے کہ اسے عدالتوں کی چوکھٹوں پر رسوا کیا جائے۔
مسلمان شیعہ علماء اکرام سے درخواست کریں کہ دریدہ دہن وسیم رضوی کو خارج از اسلام قرار دیا جائے۔عدالت عظمی کو یہ پیغام دیں کہ یہ تمہارے دائرے کار میں نہیں آتا ہے کہ قرآن کی آیات کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ اگر عدالت وسیم رضوی کی درخواست کو سنوائی کے لئے قبول کرتی ہے تو یہ مان لینا چاہیے کہ حکومت اور عدالت کی نیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور مسلمانوں اور اسلام وشعائر اسلام کے تعلق سے آئندہ ان کی کیا پالیسیاں ہو سکتی ہیں۔ میرے خیال میں قرآن خود حکومت،عدالت اور دریدہ دہن سمیت اہل ایمان کے لیے حجت بننے جارہا ہے۔آئندہ کے لائحہ عمل کو بنانے اور اس کے لیے جد وجہد کرنے کے لیے موجودہ ماحول اپنے اندر ایک واضح علامت رکھتا ہے۔
ہمیں اللہ کے کلام سے جڑنے اور اس سے استفادہ کرنے کی بڑے پیمانے پر سعی و جہد کرنی چاہیے۔ بچوں، جوانوں، خواتین  اور مردوں کے لیے ناظرہ قرآن سے لے کرتجوید سے لے کر ترجمہ اور ترجمہ سے لے کر تفاسیر تک سمجھنے و سیکھنے کا ماحول بنانا چاہیے۔قرآن کی زبان کو سیکھنے سمجھنے کا نظم کرنا چاہیے۔اس پر عمل کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔
IMG
زندگی میں دوسری بار یا اس سے زائد حج پر جانے والوں کی خدمت میں ایک مشورہ

ذرا سوچئے!
سعودی عرب نے بیرونی حاجیوں کو اس سال حج پر آنے سے منع کردیاہے وجہ وبائی مرض کا پھیلاؤ بتلایا گیا ہے۔اس وباء کو روکنے کے لئے نہ کوئی ویکسین ہے اور نہ کوئی دوا۔ احتیاطی تدابیر میں ہاتھ منھ دھونے،آنکھ ناک اور منھ کی حفاظت اور تیسرے تالہ بندی اور لاک ڈاؤن۔
لاک ڈاؤن نے غریبوں اور معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں کی کمر توڑ دی ہے۔وہ مدارس جو رمضان کے چندے پر چلا کرتے تھےاب وہ مدارس بھی اپنے اساتذہ کو فارغ کر رہے ہیں۔وہ ائمہ کرام جن کا وظیفہ جمعہ کے چندے سے وابستہ تھا مساجد کے بند کئے جانے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔ہزاروں خاندان ایسے ہیں جو منھ سے مانگ نہیں سکتے لیکن ان کے چہرے بولتے ہیں ۔اسی سلسلے میں وہ غریب والدین بھی ہے جن کے گھر جوان بیٹیوں کے نکاح ہونے ہیں، ایسے مریض بھی ہے جن کا علاج مشکل اور مہنگا ہوگیا ہے، ایسے اساتذہ بھی ہیں جو غیر امدادی اسکولوں میں پڑھا رہے تھے ، رکشہ ڈرائیورس، روز محنت مزدوری کرنے والے لوگ سب کے سب لوگ پریشان ہیں ۔
جن حضرات نے ایک مرتبہ حج کرلیا ہے اور اس فرض کی ادائیگی کے بعد انہوں نے حج پر جانے کا مزید ارادہ کر لیا تھا ان حضرات کے لئے یہ اطلاع ہے کہ حکومت سعودیہ نے بیرونی حجاج کو حج پر آنے سے روک دیا ہے۔حج کمیٹی اور ٹورس والوں نے رقمیں واپس کرنا شروع کردی ہے۔ ایسے حضرات جو زندگی میں دوسری مرتبہ یا اس سے زائد حج کی تیاری میں تھے ان کے لئے ایک ادنیٰ مشورہ یا تجویز ہے ۔

 

Campaign - Jul 05
IMG
اس آزمائش میں سماجی فاصلہ کے ساتھ سماجی معاشی نفسیاتی تحفظ کیسے ہوگا۔؟
کورونا  آزمائش کی سختیوں کا مرحلہ زیادہ سخت ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے ملت اسلامیہ ہند  کو مستقل اپنی حکمت عملی پر غور کرتے رہنا ہوگا، اور حالات کے لحاظ سے حکمت عملی بنانی ہوگی۔ کورونا سے بالواسطہ اوربلا واسطہ نقصانات و آزمائش الگ الگ ہیں۔ افراد کا بیماری سے متاثر ہونا ، ہسپتالوں میں بھرتی ہونا اور خداناخواستہ ہلاکت کی صورت میں تدفین تک کے لیے مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ کوارنٹین کے الگ الگ قواعد بھی بہت مسائل پیدا کررہے ہیں۔ ایسی سنگین صورتحال کو مزید سنگین ملک کی معاشی کمزور حالت، بیروزگاری؛ مہاجرت اور  فاقہ کشی نے بنادیا ہے۔ کورونا متاثر یا مشکوک فرد کی ٹسٹ سے لیکر  بھرتی تک ہر مرحلہ پر مختلف سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ مسلمانوں سے خصوصی تفریق کی رپورٹ بھی چورو، میرٹھ، کانپور، نوئیڈا، وغیرہ سے آرہی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمانوںکی کوئی بھی مرکزی قیادت نہ انفرادی اور نہ اجتماعی منظم کوشش کررہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ خوراک رسانی کا کام ان جماعتوں اور امیر الہند کے کھاتہ میں جاسکتا ہے۔ مگر کوئی بھی اجتماعی کوشش مرکزی طور سے ایک وفاق بنا کر مسائل کو حل کرنے کی  نہیں ہوئی۔ ہر ایک اپنے طور پر امیر الہند بنا ہوا ہے اور اردو اخباروں میں فوٹو و پریس ریلیز شائع کراکر ملت کے ’’جسد واحد‘‘ ہونے کے تقاضہ پورے کررہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ مرکزی سرکار کے داخلہ محکمہ اور وزارت برائے صحت و خاندانی بہبود سے بات تک نہیں کررہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے مرحلہ وار کھولنے سے قبل مساجد میں اقامت صلوٰۃ کو لیکر اپنا موقف نہیں رکھاگیا۔جبکہ حکومتی رہنمائی نامکمل یا غلط اطلاعات کی بنا پر جاری کی جارہی ہیں ۔اسی لیے ان میں تیزی  سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ہمارے مرکزی بزعم خود رہنما اس تعلق سے اپنے علم کو Update  کرتے رہتے تو وزارت صحت CMR Iکو اپنا موقف سمجھاسکتے تھے۔ خصوصاً مساجد میںمصلیان کی تعداد کو لیکر صوبائی حکومتوں کا رویہ سائنس سے زیادہ لاعلمی یا تعصب پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔۵ افراد کی قید مساجد میںکیوں ہے جبکہ وہاں زیادہ سے زیادہ ۵-۷ منٹ کا  وقت فرض نمازوں میںلگتا ہے۔ مگر سرکاری آفسوں؛ عدالتوں ؛کچہریوں؛ نگر نگم، بینکوں، مقامی ذرائع نقل و حمل Transport میں گھنٹوں، گھنٹوں لوگ ساتھ بیٹھ رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھانا تھا کہ دوسرے مذاہب  کے بر خلاف اسلام میں نماز بہت الگ مقام رکھتی ہے۔ یہ باجماعت فرض ہے۔ اس میں طہارت؛ وضو کے مسئلہ ہیں،جو کہ کورونا سے لڑائی میں معاون ہیں۔ انسانون میں قوت مدافعت اور مزاحمت Immunity or resistanceپیدا کرتی ہے۔ مرض سے لڑنے کے لیے درکار حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ جسمانی طہارت کا موثر ترین ذریعہ ہے اور یہ ہر حال میں فرض ہے۔ اس کے بجائے ہمارے خود ساختہ مدعیان رہنمائی حکومتی اقدامات کی پابندی کا راگ الاپ کر خو شنو دی بھی حاصل کررہے ہیں اور کچھ کئے بغیر قائد ملت بھی بنے ہوئے ہیں۔ حکومتی ہدایات جارہی ہونے سے قبل کے مرحلہ میں اُن سے گفت و شنید اور اطلاعات کے تبادلہ کے ذریعہ ان کو یقینا قائل کیا جاسکتا تھا کہ وہ مساجد میں تعداد کو محدود نہ کریں بلکہ ان کو احتیاطی تدابیر کی پابندی کے لیے پابند کرتے۔ دنیا بھر میں کورونا کو لیکر تکنیکی معلومات نہایت ناقص اور تغیر پذیر ہیں۔ اور بہت سی معلومات نہیں بلکہ ان حالات میں بھی مالی استحصال کاذریعہ بھی ہیں۔ کورونا سے لڑنے کو لیکر Vaccineکی آمد تک ’’فاصلہ‘‘ اور طہارت Senetization ہی ہتھیار ہیں۔ مگر برطانیہ اور دیگر یوروپی و کچھ مسلم ممالک اجتماعی قوت مدافعت Herd Immunity کو ہی مرض سے مقالہ کی واحد صورت بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا کے ۷۰۔۸۰ فیصد  لوگوں کو اس جرثومہ Virus کی ہلکی سی عفونت LowLevel infection نہیں ہوتی عمومی آبادی اس کا مقابلہ نہیں کرپائیگی۔ ویکسین کے آنے کے بعد بھی دنیا کی ۸۔۷ارب آبادی کو اس کا دستیاب ہونا ناممکن ہے۔ حکومتیں اگر مصیبتوں میں بھی منافع کمانے والوں کے چنگل مین نہیں ہیں جو =/۱۵  روپیہ کا ماسک=/۸۰۰-۳۵۰ روپیہ میں فروخت کررہے ہیں تو حکومتوں کو غلط اور گمراہ کن اطلاعات کی مہاماری سے خود کو بھی بچانا ہوگا اور عوام کو بھی بچانا ہوگا۔ کورونا کی بیماری کا حل پانے کے بعد انشاء اللہ جب اس کی تاریخ لکھی جائیگی تو اس کے سنہرے ابواب کے مقابلہ سیاہ ابواب بھی ہونگے جن میں رقم ہوگا کہ کس طرح جان بوجھ کر غلط اطلاعات اور اعداد و شمار کے ذریعہ حکومتی فنڈ اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ وینٹی لیٹر کے نام پر گھٹیا آلات خریدے گئے۔ وغیرہ
سردست امت مسلمہ کے لیے خصوصاً اور پوری نوع انسانی کے کمزور طبقوں کے لیے عموماً اہم ترین مسئلہ بھوک، بیروزگاری، مہنگائی اور بیماری کے علاج کا ہے۔ یہ طبقہ دنیا کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہے اور ترقی پذیر یا غریب  و انتہائی  غریب  ممالک سے تعلق رکھتا ہے۔ ان ممالک کے پاس اتنے بڑے طبقہ کے سماجی تحفظ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اگر ہوگا تو انتہائی قلیل و غیر مفید ہوگا۔ تمام بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ سماجی تحفظ کا مسئلہ سنگین بحران میں تبدیل ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی فاقہ کشی؛ ناقص تغذیہmalnutrition؛  دیگر مہلک تغذیہ کا شکا ہوگی اور ہتھیاروں مقابلہ حسن، عالمی فٹ بال؛ کرکٹ ٹورنامنٹ؛ کار ریس؛ IPL اور اولمپک جیسی تفریحات اور انسانی تباہی  کے آلات پر تو کھربوں ڈالر خرچ کرسکتی ہے مگر غربت کی ماری اتنی عظیم انسانی آبادی کے لیے ان گھڑیالوں کے پاس خزانہ نہیںہوتے۔ اقوام متحدہ  کے سکریٹری جنرل کا بیان انتہائی سنگین حالات کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس  Gouteres نے کہا’’دنیا کو فوری اقدامات کرنے ہونگے۔روزانہ یہ واضح ہوتا  جارہا ہے کہ ایک عالمی غذائی بحران ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ جس کے طویل المدت برے اثرات دنیا کے لاکھون نوجوانوں اور بچوں پر پڑینگے۔ دنیا میں ضرورت سے زیادہ غذائی اجناس موجود ہیں جو کہ کل آبادی ۸۔۷ ارب لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ مگر آج ۸ کروڑ ۲۰ لاکھ لوگ بھوکے ہیں۔ اور ایک کروڑ ۴۴ لاکھ بچہ یعنی ۵ سال تک کے عمر کے ہر ۵ بچہ پر ایک  بچہ نشو و نما میں ٹھٹھرن Stunted growth کا شکار ہے ۔ہمارا غذائی نظام ناکام ثابت ہورہا ہے(دی ٹریبون چنڈی گڑھ۲۰/۰۶/۱۱)
دنیا کے سب سے  اعلیٰ دنیاوی سرپرست کا بیان حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ وہ یہ بھی بتارہا ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی کمی نہیں ہے۔ اناج اور اجناس موجود ہیں ،گوداموں اور منڈیوں میں سڑ رہے ہیں۔ مگر ضرورتمندوں تک نہیں پہونچ رہے ہیں ۔ بھارت میں ریکارڈ گندم کی پیدا وار ہوتی ہے۔ گوداموں میں بغیر اسٹاک  بھی وافر مقدار میں ہے مگر ضرورتمندوں تک نہیں پہونچ رہا ہے۔ اس میں سے ملک کے غریبی کی سطح سے نیچے کے لوگون کو پورا اناج دینے سے اسٹاک کا %۳ بھی خرچ نہیں ہوگا مگر یہ نہیں ہورہا ہے۔ ماہرین کہہ رہے کہ اگر ضرورتمند خاندانوں تک ہر ماہ  =/۷۰۰۰ روپیہ کی رقم  سیدھے  اکاونٹ میں منتقل کریں تو صرف ۳ ماہ کا خرچ GDP کا بہت قلیل حصہ =/۶۰۰۰۰ کروڑ روپے ہوگا۔  جب وہ خرید نہیں رہے تو مال فروخت کیے ہوگا؟ مال فروخت نہیں ہوگا تو کارخانہ کیسے چلیں گے۔ کارخانہ نہیں چلیں گے تو نوکری کہاں سے پیدا ہوگی؟؟؟
مزدوروں، پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والوں، کسی بھی طرح کی تجارت سے جڑے لوگ کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ کمالیںگے ۔ایک کام کے بجائے دوسرا کام کرکے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرلیں گے ۔حکومت سے BPL راشن کارڈ پر اناج مل جائیگا مگر کروڑوں وہ لوگ جو پڑھے لکھے بیروزگار ہوگئے ہیں، اسکولوں کے، مدرسوں کے اساتذہ: ITسیکٹر میں اوسط درجہ کی نوکریاں کرنے والے پارٹ ٹائم کام کرنے والے؛ پرائیوٹ سیکٹر میں ۱۰-۲۰ ہزار کی نوکری کرنے والے کروڑوں سفید پوش بیروزگار ہوکر فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں۔ کرایہ کا مکان: دوپہیہ سواری؛ معیاری لباس و رکھ رکھاؤ کے باوجود آج بیروزگار ہوگئے ہیں۔ ان کے لئے نہ منریگا MENREGA ہے نہ پنشن نہ بیروزگاری الاؤنس نہ کوئی اور سہارا ہے۔ ان کے پاس کیا دنیاوی سہارا  ہے؟؟ ایسے تمام کروڑوں افراد اور ان کے اہل خانہ کے  لئے روشنی کی کرن یا تنکے کا سہارا کیا ہے؟  یہ کوئی فرضی یاخیالی مفروضہ نہیں ہے۔ یہ روزانہ کی زندگی کے پچھلے ۳ ماہ کی ریلیف، ذاتی اورملک گیر پیمانے کی ریلیف کے کاموں کے احساسات ہیں، تجربہ ہیں  جن سے ہم سب گذرے ہیں۔ ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر محنت، مزدوری، تجارت کرنے والوں کی کروڑوں کی تعداد گھر  تو اگئی ہے مگر اب کھائیگی کیا؟ اگر گھر پر گاؤں میں آمدنی کے زندہ رہنے لائق ذرائع ہوتے تو پردیس کی ٹھوکریں کیوں کھاتے؟ غریبوں کی گھروں میں بیٹھی کنواری بچیوں کی نکاح ، رخصتی سب اٹک جائیگی ۔ایسے میں خود ان بچیوں اور ان کے والدین کی زندگی کیا کسی جہنم سے کم ہوگی؟ ایک بڑا مسئلہ نفسیاتی امراض، تناؤ اور مایوسی Depression اور خودکشی کے بڑھتے رجحان کا پیدا ہورہا ہے۔ اور آگے اس رجحان کے بڑھنے کے خدشات قوی تر ہیں۔
اس طرح کے حالات۱-۲ سال تک بنے  رہنے کے امکانات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں امت مسلہ کیا امدادی، ہنگامی تدابیر کرسکتی ہے، تاکہ اس بحران کے سنگین نتائج سے نجات مل سکے۔ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور خلفاء راشدین کے اسوہ کی روشنی میں کام کرنیکی ضرورت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے حقوق العباد کے ضمن میں جو تعلیمات اور اسوہ دیا ہے، قرآن پاک میں ضرورتمندون ،محروموں، مسکین ویتامی کی مدد تاکیدی انداز میں کی ہے، وہ ہمیں ایک بار دہرانے کی ضرورت ہے۔  ایک حدیث میں آپ نے فرمایا ’’فقر انسان  کو ارتداد  تک پہونچاسکتا ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ پاک نے محرومون اور مجبوروں کو کھلانے، پہنانے اور پلانے کو خود اپنے آپ کو کھلانے، پہنانے اور پلانے سے تشبیہ  دیکر کام کی عظمت بتائی ہے۔ ملت کے جسد واحد ہونے کا بھی تقاضہ ہے کہ ہم ملت کے کمزوروں کی اس شدید احتیاج اور ضرورت کے وقت مدد کریں۔ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے، ملکی اور بیرونی سرکاری غیر سرکاری ادارہ دنیا بھر میں  یہاں  تک کہ مسلم اکثریتی ممالک  انڈونیشا، بنگلہ دیش اور پاکستان تک میں مشنریوں اور ایڈ ایجنسیوں کے ذریعہ  ایمان  خرید رہے ہیں ،جب کہ حالات نارمل تھے۔  اب تو حالت شدید ہیں۔ ایسے میں ہر جگہ یہ خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں کچھ اشارہ  تجربہ کی روشنی اور مشاہدہ کے ذریعہ پیش خدمت ہیں۔ بقیہ اپنے اپنے مقام کے حالات کے پیش نظر طریقے اختیار  کیے جاسکتے ہیں:
۱- سرکاری امداد کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ ہر طرح کے راشن کارڈ؛ لیبررجسٹریشن کرانے میں ملت کے پڑھے لکھے نوجوانون اور محلہ کی مساجد کے ائمہ کو مل کر مدد کرنی ہوگی۔راشن کارڈ بنوانے بہت ضروری ہین چاہے تھوڑا بہت سرکاری خرچ بھی ہو۔ بیوہ پنشن، معذور پنشن، بچیوں کے وظیفے، سرکاری تعلیمی وظائف کے حصول سے متعلق جانکاری اور عملی رہنمائی ضروری ہے۔
۲- تمام  مسلم تنظیموں کو جہاں ممکن ہو ملکر  نہیں تو فرداً فرداً اپنے کیڈر (اراکین) کے ذریعہ امدادی کام منظم کرنا چاہئے۔ ہر صاحب حیثیت آدمی تھوڑا بہت تعاون کرے اور محلہ کا نظم محلہ کی ہی دیکھ بھال کرے ۔صاحب اسطاعت افراد خصوصاً سرکاری ملازمین سے خصوصی  ربط کرکے ان سے تعاون حاصل کیا جائے۔ زکوٰۃ کی رقم ایڈوانس ہر ماہ قسطوں میں لی جا سکتی ہے۔ کوئی ساتھی نہ  ہو تو اکیلے کام شروع کردیں۔
۳- مدارس کو اجناس (غلہ، سبزیاں، گوشت) وغیرہ کی شکل میں مدد کے قدیم نظام کی اپنانا ہوگا تاکہ طلبا کے طعام کا مسئلہ حل ہوسکے۔ اناج یا جنس کے ذریعہ تعاون یا ان کی فروخت کرکے اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں۔
۴- پورے ملک میں اوقاف کی شکل میں بے اندازہ  بیش قیمت سرمایہ عموماً ضائع ہورہا ہے۔ کیونکہ اکثر یاتو متولی بے ایمان ہیں یا نااہل ہیں۔ وقف بورڈوں میں سیاسی تقرریوں کی وجہ سے اپنے خوشامدیوں کو  اوپر سے نیچے  تک متولی بنایا جاتا ہے۔ ان بیش قیمت اثاثوں سے پورا فائدہ اٹھانا فرض ہے۔ عوامی دباؤ بنا کر مساجد ؛ درگاہوں، مزاروں کی آمدنی پر مسٹنڈوں، موالییوں، نشہ بازوں کو پالنے کے بجائے ملگ کی ضرورتمند ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، معذوروں، مسکینون کی خوراک، دواء  علاج، تعلیم پر  خرچ ہونا چاہئے۔ مساجد وقف علی الخیر کا حصہ ہیں۔ وقف کی زائد آمدنی سے مساجد کے اخراجات کے علاوہ مندرجہ ذیل بالائی امور انجام دینے چاہئے۔ وقف املاک کو سب سے زیادہ مسلمان  ہڑپتے ہیں۔ انہیں کم سے کم اس شدید دقت میں مارکیٹ ریٹ سے کرایہ ایمانداری سے ادا کرکے غرباء مساکین کی مدد کرنی چاہیے۔
۵- ان سب کے ساتھ لاک ڈاؤن  کے فرصت  کے اوقات موبائل، نیٹ،  سیریل، پتنگ بازی، گپ شپ کے بجائے دینی معلومات؛ تجوید، نماز و طہارت کے مسائل، طریقہ واذکار ، حلال و حرام  کے احکامت کو سیکھنے سکھانے کا عمل گھر گھر میں شروع کردیاجائے۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے کم آواز پر صبح و شام آدھے آدھے گھنٹے یہ کام امام صاحبان کرسکتے ہیں۔ یہ حالات کے دھارے  پر بہنے  کا وقت نہیں ہے۔ حالات کے دھارے گو اپنے حق میں کرنے کا ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ توبہ، استغفار، توکل علی اللہ ہرحال میں ضروری ہے۔
 
ڈاکٹر اجمل فاروقی
۱۵۔گاندھی روڈ، دہرہ دون
فون:۹۰۶۸۵۲۲۸۵۱
 

 

Campaign - Jun 23
IMG
شرک سے سمجھوتہ نہیں

شرک ایک ایسی برائی ہے جس سے اسلام کہیں بھی اور کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتا ،یہ ایسا ناقابل معافی جرم ہے کہ اگر اسی حالت پر انسان مر جاتا ہے تو خدا اس کی مغفرت نہیں کرے گا۔ شرک عظیم ترین گناہ ہے اور افسوسناک جہالت بھی یہ اندھیرا ہے اور روشنی اور اندھیرا ایک جگہ جمع نہیں ہوتے اسی لئے توحید اور شرک میں اتحاد نہیں ہو سکتا ،جہاں توحید ہے وہاں شرک نہیں رہتا جہاں شرک ہوگا وہاں توحید کا سوال نہیں۔ یہ بات بالکل صاف ہے کہ کہ توحید مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے اور شرک اس کی ضد ہے۔ اس لیے فطری اور قدرتی طور پر مسلمان شرک بیزار ہوتا ہے اور اسے ایسا ہونا ہی چاہیے اب ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مذہبی آزادی کے حق کو دستوری طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اسی کے تحت پتھروں ،درختوں ،دریاؤں اور جانوروں کی پوجا کرنے والوں پر قانونی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی تو آخر کس طرح خدائے واحد کی بندگی پر یقین رکھنے والوں کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ مشرکانہ خیالات اور افکار پر مبنی کسی گیت کو قوم و وطن کے نام پر قبول کرلیں ، اگر اپنے عقیدہ اور عمل کے معاملے میں ہندوستان کے شہری آزادہے تو کس منطق سے مسلمان کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ وطن کی خدائی کے تصور کو گلے لگا لے ، حالانکہ وہ اس کے عقیدہ توحید کی ضد ہے۔ اگر ایسا کرنا ہے تو ملکی دستور ،شہری حقوق اور جمہوریت کو دیش سے نکال دو اور کوئی ایسا دستور بناؤ جس میں من مانی کرنے کا حق کسی ایک طبقہ ایک پارٹی کو دے دیا گیا ہوں ،بصورت دیگر وندے ماترم جیسے گیت کو سب کے لئے لازم قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں سے وندے ماترم گانے کا مطالبہ کرنا اسلام دشمنی کے ساتھ ساتھ ملک دشمنی بھی ہے آخر کس ملک سے اس سے بڑی دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے باشندوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے اور ان کی آزادی سلب کر لی جائے۔

اقتباس : وندے ماترم کا مسئلہ (حب الوطنی یا شرک) 
از: محمد ساجد صحرائی

Campaign - Aug 24

Article

IMG

کورونا -لاک ڈاؤن اور مسلمان

Article - Apr 10 2021

کورونا -لاک ڈاؤن اور مسلمان

-ضیاءالدین صدیقی 

 

ٹوکیو کے ایک ماہر امراض جنہیں اپنے شعبے میں قابل قدر خدمات پر نوبل انعام بھی دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس انسانی تخلیق ہے۔اسے کچھ خاص مقاصد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔وہان چین سے ساری دنیا میں غضب ڈھانے والاوائرس امریکہ کی نظر میں چین کی جنگی دشمنوں کو زک پہنچانے کی قوت کے اظہار کے لیے بنایا گیا جرثومہ ہے۔اسی قدر چین کا الزام یہ ہے کہ کچھ سال قبل امریکی فوجیوں کے ذریعہ اس وائرس کو چین پہنچایا گیا ہے۔تیسری جانب اکانومسٹ اسرائیلی میگزین کی اگر مانیں تو اس وائرس کو انہوں نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔

اس بیماری کا علاج تو خاص نہیں البتہ ویکسن بنائی جاچکی ہے جس کاتجربہ جانوروں سے قبل انسانوں پر کیا جارہا ہے۔۲؍ڈوزسے کام بنتا نظر نہیں آتا۔اس کے باوجود کورونا حملہ آور ہو ہی جاتا ہے۔جن لوگوں نے اس کے علاج کا دعوی کیا ہے اس میں گومتر کا استعمال،تھالی اور تالی بجانا،دئیے روشن کرنا،ناک منہ ڈھانکنا،سماجی دوریاں بنائے رکھنا ،غیر متوازن ذہنی مریض کی طرح ہرمرتبہ ہاتھوں کو دھوتے رہنا ہی بتلایا گیا ہے۔گومتر کو استعمال کرنے والوں نے کورونا کو کس قدر شکست دی ہے میڈیکل کے اعداد وشمار بتلائے جا سکتے ہیں تھالی وتالی بجانے سے الٹا صوتی آلودگی میں اضافہ ہی ہوا ہے،دئیے روشن کرنے سے ہوسکتا ہے کہ حکومت کو کچھ نہ کچھ بجلی کی بچت رہی ہوگی ورنہ کورونا کو اندھیرے میں اپنے پاؤں پسارنے کا اور موقع ہی ہاتھ آیاہوگا۔

سماجی دوریاں بنائے رکھنا بھارت کی پراچین تہذیب کا اہم حصہ ہے۔بھید بھاؤ پیدائش کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ،اس وقت بھید بھاؤ بیماری کی وجہ سے ہے۔دونوں میں قدر مشترک دوری رکھنا ہے۔ناک اور منہ ڈھانکنے کو علاج سمجھنے والوں نے اسے بڑی خوبصورتی سے اپنایا ہے۔کیوں کہ پسماندہ افراد منہ کو ڈھانپ کر اعلی ذات کی بستیوں سے گزرنے پر مجبور کیے جاتے تھے۔خود ماسک کے استعمال سے افراد کی شناخت مشکل ہوگئی ہے۔آواز کچھ رہنمائی کرتی ہے لیکن اکثر غلط فہمی ہوجاتی ہے۔کورونا کی علامات میں سانس کا پھولنا اور پھیپڑوں کاسکڑنا بھی ہے۔اس حالت میں ماسک کا استعمال ’’چی معنی دارد‘‘؟

آکسیجن سے پھیپڑوں کو سہولت ملتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ واپس کردیا جاتا ہے۔ماسک لگانے کی شکل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ دوبارہ پھیپڑوں میں واپس چلی جاتی ہے۔آکسیجن کا کم ملنا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جسم میں واپس چلا جانا کیا ہمیں بیماریوں کا شکار نہیں کرتا ہے؟۔قفل بندی نے کاروبار دنیا کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔محنت مزدوری کرنے والوں کی جان پر آن پڑی ہے،گذشتہ قفل بندی سے آج تک معاملات نہیں سنبھل پائے تھے کہ دوبارہ وہی دن آ کھڑے ہوئے ہیں۔غریب کیا کریں؟جن لوگوں نے گذشتہ سال اپنی آمدنیوں سے دوسروں کی امداد کی تھی آج بعض ان میں سے خود امداد کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔سرکاری گوداموں میں اناج بھرا ہونے کے باوجود وہ غریب کی کٹیا تک نہیں پہنچ پارہا ہے۔گذشتہ اپریل میں مزدور اور غریبوں کی ہجرت کے مناظر میڈیا کی زینت بنے تھے کیا پھر وہی سماں بننے جارہا ہے؟

اس پوری بھاگ دوڑ میں دنیاوی نقصان تو ہوا ہی ہے لیکن مسلمانوں کا دینی نقصان بھی بہت ہوا ہے۔ان کی مساجد صحت مندوں کے لیے بھی بند کردی گئیں۔رمضان میں پورا قرآن سننے کی سنت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی کیوں کہ مساجد بند ہوگئی تھیں۔اعتکاف،شب قدر کا اہتمام،نوافل کا اہتمام سب Covid19 کی نذر ہوگیا۔جمعہ وعیدین کی نمازوں کو قفل بندی میں ادا کرنا پڑا۔حرم کی تالابندی نے دنیا کے مسلمانوں کی زبانوں پر تالے ڈال دئیے اور دنیا کو زبانیں عطا کردیں۔حج و عمرہ سب اسی کی نذر ہوگئے۔روحانی طور پر امت کا دوہرا نقصان ہوا ہے۔کم از کم مسلمان اب کے رمضان میں مساجد پر کوئی Compromise نہ کریں۔ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ کوئی کوویڈ کے علامت زدہ یا بیمار شخص مسجد میں نہ آئے،لیکن صحت مندوں کو کیسے روکا جاسکتا ہے جب کہ اذانیں بھی دی جارہی ہوں؟پروٹوکول کا خیال رکھا جائے لیکن جہاں بنیادیں ختم ہوں تو پھر شریعت کو اختیار کیا جانا چاہیے۔جن لوگوں کے پاس نماز کی صف میں ذرا سا فاصلہ بھی گوارا نہیں تھا،وہ تین تین فٹ دور کھڑے صف بندی فرمارہے ہیں۔دعوتوں میں،بازاروں میں،اسفار میں جو لوگ دوریاں نہیں بنا پارہے ہیں وہ نمازیں دوریاں بنا کر ادا کررہے ہیں۔مجبوریاں اللہ جانتا ہے لیکن کچھ بندوں کو بھی غور وفکر کرنا چاہیے۔

ہمارے لیے جتنا ضروری دودھ،کرانہ،سبزی اور دوا ہے اتنا ہی ضروری اللہ کے حضور جھکنا اور اس کی محبت اس کے احکام بجا لانا ضروری ہے۔اس کی عبادت معتبر بنتی ہے اس کے پروٹوکول کو پورا کرنے سے،فرض نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی آمد ضروری ہے۔نمازیں ہوتو جاتی ہیں لیکن سماجی رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔اجتماعیت کا ایک ستون ڈھ جاتا ہے۔

تیسری بات کہ ہمارا بھرم جو ہمارے عقیدے اور تواتر کی وجہ سے بنا ہوا تھا بکھرنے لگتا ہے۔حرم کی عبادت بند،جمعہ گھروں میں،سوچ وفکر میں تبدیلی آتی ہے۔کورونا کو تھالی اور تالی اور دئے جلاکر بھگایا جاسکتا ہے۔بڑے بڑے دینی مدارس اور اہم شخصیات نے اس بدعت کو اپنایا ہے۔رمضان کا موسم بہار کورونا کی خزاں سے متاثر ہوا چاہتا ہے۔اس سلسلہ میں کچھ ایسا طئے ہونا چاہئے کہ بہار بہار رہے اور خزاں کا مقابلہ بھی کیا جائے۔علماء اور دانش وروں کو رہنمائی کرنی چاہیے۔

 
IMG
کہیں پر نگاہیں کہیں پرنشانہ………کورونا اور تبلیغی جماعت
تبلیغی جماعت1926 میں علاقہ میوات جو ہریانہ ودہلی کے اطراف کا علاقہ ہے لوگوں کے ذریعہ شروع ہوئی تھی۔مولانا الیاس ؒ بانی تبلیغی جماعت اور ان کے ساتھیوں نے اس علاقہ کومرکز بنا کر جماعتوں کی آمد ورفت کا اہتمام فرمایا تھا۔مولانا الیاسؒ کے بعدان کے صاحب زادے مولانا یوسف ؒ امیر بنائے گئے۔مولانا یوسفؒ،مولانا ذکریا ؒ  ”مصنف فضائل اعمال“کے داماد تھے مولانا یوسف کے بعد مولانا زکریاؒ کے دوسرے داماد مولانا انعام الحسنؒ امیر بنائے گئے۔ان کے بعد ۳/ رکنی کمیٹی (Presideum)کا رول ادا کرتی  رہی۔اس میں مولانا زبیر،مولانا سعد اور ایک اور صاحب تھے۔اس کمیٹی کے دو صاحبان کے انتقال کے بعد صرف مولانا سعد ہی رہ گئے جو اس کمیٹی کے رکن تھے۔بعض لوگوں نے انہیں امیر جماعت (حضرت جی)کہنا شروع کردیا۔امارت اور مشاورت کا اختلاف تبلیغی جماعت کو دو لخت کرگیا۔اورنگ آباد کے عالمی اجتماع میں لوگوں کی بڑی تعداد نے مولانا سعد کی امارت کی تصدیق کردی۔شوریٰ کے نام سے ایک حصہ الگ ہوگیا۔اصول و دلائل دونوں کے پاس ہیں۔دھیرے دھیرے یہ اختلاف ٹھنڈا ہوگیا۔دنیا میں اس جماعت کا کام 122ممالک میں ہے اور مرکز نظام الدین۔
اچانک ’’کورونا ‘‘کی آہٹ کے ساتھ مرکز نظام الدین بھی گفتگو اور پھر سرخیوں میں آنے لگا۔بالآخر بھارت میں کورونا کے پھیلاؤ میں مرکز نظام الدین کے حصہ کو لے کر مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا دیا گیا۔ہم سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ حکومتی کوتاہیوں کا وبال کہیں نظام الدین مرکز کے سر تو منڈھا نہیں جا رہا ہے۔واقعات کی تفصیل تاریخ وار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چین کے شہر ’’ووہان ‘‘سے کورونا کے نئے وائرس نے سر ابھارا۔دیکھتے ہی دیکھتے 179 ممالک کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔اس میں ہمارا ملک بھارت بھی شامل ہے۔کل تین ہزار سے زائد مریضوں سے86/ کی اموات ہوچکی ہے۔(یہ مضمون لکھے جانے کے وقت تک)
1)31/مارچ 2020ء مرکزی شعبہ صحت کے جوائنٹ سیکریٹری مسٹر اگروال نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ یہ بتلایا کہ کسی قسم کی Health Emergancy نہیں ہے۔اس دن دہلی حکومت نے اپنے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سمینار،کانفرنس پر پابندی عائد کی۔اس میں مذہبی اجتماعات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
 
2)13تا15مارچ مرکز نظام الدین میں اجتماع ہوا۔کیوں کہ یہ ایک تبلیغی مذہبی اجتماع تھا جس کی انہیں اجازت تھی۔
 
3)14مارچ ہندو مہا سبھا کا اجلاس  ہوتا ہے جس میں کورونا کا علاج گومتر اور گوبر سے کیا جاتا ہے۔2000افراد نے شرکت کی تھی۔
 
4)16مارچ سکھوں کا مشہور گردوارہ گولڈن ٹیمپل کھلا تھا۔بمبئی کا سدھی ونائک مندر کھلا تھا۔اجین کا مہا کالیشور مندر کھلا تھا۔
 
5)17مارچ کو شرڈی کا سائی مندر کھلا تھا۔
 
6)18مارچ کو جموں و کشمیر کا وشنو دیوی مندر کھلا تھا۔
 
7)19مارچ کو ترپتی مندر چتور بند کیا گیا۔جس میں ہر روز 4000 لوگ آتے ہیں۔اسی روزوزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے 22مارچ کو جنتا کرفیو کا اعلان کیا۔
 
8)20مارچ کو کاشی وشوناتھ کا مندر بند کیا گیا۔
 
9)22مارچ کو شام ۵/بجے تالی وتھالی بجا کر سڑک پر آکر جنتا کرفیو کو توڑا گیا۔اسی دن یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے اپنے 10000    ساتھیوں کے ساتھ رام للا کی مورتی کو دوسری طرف منتقل کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد کیا۔
 
10)23مارچ کو ایم پی کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان حلف لیتے ہیں اس کی تقریب منائی جاتی ہے۔اس دوران دو روز تک پارلمنٹ کا سیشن چلتا ہے۔اس کے بعد صدر جمہوریہ یہ تمام ایم پیز کی دعوت فرماتے ہیں۔ساکشی مہاراج متھرا میں بھیڑ اکھٹی کرتے ہیں۔یدی یورپاوزیر اعلیٰ کرناٹک اپنے وزیر کی بیٹی کی شادی میں شرکت فرماتے ہیں۔جس میں 2000افراد شریک ہوتے ہیں۔
 
11)24مارچ کو وزیر اعظم نیشنل لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہیں۔صرف 4گھنٹے کے بعد ہی لاک ڈاؤن شروع ہوچکا تھا۔
 
12)25مارچ دیوریہ میں ”ماں ادی شکتی“کے نام سے آشرم میں 200لوگو ں کو جمع کیا گیاتھا۔اسی دن تبلیغی جماعت نے SHOنظام الدین سے تقریبا 1000لوگوں کو Shiftکرنے کے لیے گاڑیوں کی اجازت مانگی۔اس سے قبل لوگ بڑی تعداد میں جا چکے تھے۔SHOنے یقین دلایا،اسے باضابطہ تحریر دی گئی تھی جس کی کاپی مرکز کے پاس ہے۔
 
13)اس کے بعد ACPکو خط کے ذریعہ اطلاع دی گئی کہ اتنے لوگ مرکز میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں ان کے منتقلی کانظم کیا جائے۔لیکن انہوں نے بھی اس کی سنجیدگی کو نہیں سمجھا۔SHOاور ACPیہ دونوں حضرات سنٹر ہوم ڈپارٹمنٹ کے تحت آتے ہیں۔
 
14)اس کے بعد SDMسے ملاقات کرصورت حال بتلائی گئی،اس کے بعد DMسے اس مسئلہ میں گفتگو ہوئی لیکن کچھ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ان لوگوں نے توجہ ہی نہیں دی۔یہ دونوں صاحبان دہلی حکومت کے تحت آتے ہیں۔
 
15)تمل ناڈو کے ایک صاحب جو مرکز میں تھے ان کا انتقال طبعی موت سے ہوا۔اس کو بنیاد بنا کر دہلی حکومت نے مرکز نظام الدین کو نوٹفکیشن دیا۔
 
16)نظام الدین مرکز میں28/مارچ کو NSAاجیت ڈوبھال نے مولوی سعد سے ملاقات کی اور یہ طئے ہوا کہ مرکز کے تمام لوگوں کو کورنٹائن کیا جائے گا۔
 
17)اس سلسلے میں جنہیں مرکز سے نکال کر ایسولیشن میں لے جایا گیا،ان میں سے ایک بھی شخص کو کورونا ve+نہیں نکلا۔میڈیا جو کچھ دکھلا رہا ہے وہ سب جھوٹی اطلاعات ہیں۔البتہ پورے ملک میں کچھ مریض کورونا وائرس کے ہوں گے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان کی بیماری کا ذمہ دار مرکز نظام الدین ہے۔
 
18)3اپریل کو حکومت کی جانب سے صاف بتلادیا گیا کہ لاک ڈاؤن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔مرکز نظام الدین نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔دو دنوں سے پورا میڈیا یہ ثابت کرنے کے درپے ہے کہ بھارت میں کورونا کو پھیلانے کا کام مولوی سعد اور ان کی جماعت نے ہی کیا ہے۔
 
19)حکومت لاک ڈاؤن کے اثرات چھپانے،منصوبہ بندی کے بغیر اس کا اعلان کرنے،بیماری سے نپٹنے کی معذوری،لاک ڈاؤن کے بعد بہار،بنگال اور یوپی کے دیہاڑی مزدوروں کا لاکھوں کی تعداد میں بس اسٹیشن پر جماؤ،گومتر،گوبر،تالی و تھالی بجانا،اور روشنی کے لیے دیپ جلانے سے کورونا کا علاج کرنے کی باتیں عوام الناس میں ہنسی کا باعث بن گئی ہیں۔انہیں بائے پاس کرنے کے لیے مرکز نظام الدین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ ہم مولانا سعد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سامنے آئیں اور جو حقیقت ہے اس کا اعلان فرمائیں۔جو بھی مرکز آکر گیا ہو اسے اپنے علاقہ میں اسپتال میں جاکر اپنی جانچ کا حکم دیں۔ٹیسٹ کے لیے کٹس نہیں ہیں۔انہیں مہیا کرانے کے لیے حکومت کا تعاون فرمائیں اور جن جن میڈیا ہاؤس نے بدنامی کی ہے ان پر عدالتی کاروائی کریں۔
 
بعض لوگوں نے شاید سچ فرمایا کہ کورونا چین میں پیدا ہوا،اٹلی میں پلا،ایران میں جوان ہوا اور بھارت میں آتے آتے مسلمان ہوگیا۔مرکزی اور ریاستی حکومت دہلی کی نظر کہیں اور ہے اور نشانہ کوئی اور۔اب تبلیغی جماعت کی آڑ میں کورونا اور اس وابسطہ تمام خامیوں کا نپٹارا ہوگیا ہے۔
Article - Apr 06
IMG
تبلیغی جماعت پر حملہ کیا امت واحدہ پر حملہ ہے؟

ہم نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تتلاتے دیکھا ہے۔بچوں کی زبان سے تتلانا ان کے بچپن کی پیاری حرکتیں ہوتی ہیں جو ہر ذی روح انسان کو نہ صرف خوش کرتی ہے بلکہ اگر باپ ہو تو دن بھر کی تکان کو لمحوں میں خوشی ومسرت میں تبدیل کردیتی ہے۔تتلانے کی اس عادت کو بچہ اگر لڑکپن میں بھی باقی رکھے تو وہی والدین فکر مندی کا شکار ہوجا تے ہیں اور ماہر طبیب کی تلاش کرتے ہیں کہ بچہ کا یہ نقص فوراً دور ہو۔گویا بچپن کا بچپنہ لڑکپن میں معیوب ہوجاتا ہے بلکہ والدین کے لیے فکر مندی اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔
اگر یہی تتلاپن کسی ایسے شخص میں آجائے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اہم ستون میڈیا کی نمائندگی کرتا ہوتو آپ کیا کہیں گے؟میں بات کررہا ہوں ”دیپک چورسیا“کی جو ایک ٹی وی چینل پر تبلیغی جماعت کوطالبانی جماعت کہہ کر پکار رہے تھے۔اور بالکل ایک نٹ کھٹ بچے کی طرح جب توجہ دلائی گئی تو سرے سے انکار ہی کردیا۔
بھارت میں کورونا جس دھیمی رفتار سے چل رہا تھا،دہلی حکومت اور ملک کے مرکزی نیوز چینلوں کے دانستہ طور پر مرکز نظام الدین کو ہدف بنانے کے بعد اپنی پوری تیزرفتاری کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے اور اب وہ اندیشے سچ ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو بین الاقوامی صحت عامہ کے ادارے نے ظاہر کیے تھے۔گویا کورونا کو بھارت میں کسی ایسے مذہب کی تلاش تھی جو اپنے حریف کی دشمن کا شکار ہو،وہ دشمن ملکی میڈیا نے اسے مہیا کرادیا۔اب ملک کے طول وعرض میں پوری سرگرمی کے ساتھ یہ پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے کہ ملک میں کورونا مسلمانوں کے ذریعہ پھیل رہاہے۔
دراصل ملک کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے ہندوتوا نامی جس خوں آشام بھیڑیے کے منہ کو مسلمانوں کا خون لگادیا ہے،اب یہ ان کی مجبوری ہے کہ وقتاً فوقتاً اس بھیڑیے کو غذا مہیا کراتے رہیں۔مرکز نظام الدین کو بدنام کرنے کے پیچھے دراصل یہی سوچ کام کررہی ہے۔
مرکز نظام الدین کے خلاف اس جھوٹ کا مقابلہ خود تبلیغی جماعت کی مرکزی قیادت کو سامنے آکر کرنا ہوگا۔ تاکہ مسلم قیادت ان کے شانے سے شانہ ملا کر ساتھ دے سکے۔
جھوٹ کے اس پلندے کے ساتھ مسلم دانشوران و علماء کرام کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آخر تبلیغی جماعت جیسی بے ضرر، نماز و روزہ کی دعوت دینی والی اور سیاست کی س سے بھی نابلد جماعت سے بھلا حکومت کو کیا بیر ہوسکتا ہے۔ایسی جماعت جس کی چلت پھرت میں مسلم معاشرے کے وہ لوگ زیادہ حصہ لیتے ہیں جو سماج کے نچلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں،جن سے یہاں کے اسلام سے بیر رکھنے والوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔اس سوال کے جواب کے لیے آپ کو تبلیغی جماعت کی جماعتی ترکیب پر غور کرنا ہوگا۔آج پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی غلبہ دین اورمسلمانوں کی اصلاح وتربیت کی کوششیں ہورہی ہیں وہ سب قومی، ملکی اور قانونی حدود کے پابند ہیں۔بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ امت واحدہ کا تصور ناپید ہوچکا ہے یا کم از کم عملی طور پرناکام ہوچکا ہے۔سب جماعتوں کی اپنی مجبوریاں ہیں، اپنا دائرہ کار،طریقہ کار،اور حدود کی پابندیاں ہیں۔یہ سارا انتشار اس کے باوجود ہے کہ ان میں فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔مثلاً اخوان المسلمون تقریبا پوری عرب دنیا میں پائی جاتی ہے، جماعت اسلامی کم وبیش پوری مسلم وغیر مسلم دنیا میں پائی جاتی ہے۔اس کے باوجود سب ملکی حدود اور وہاں کے قانون کے پابند ہیں۔ان پابندیوں ہی کی وجہ سے ان کے امراء بھی جدا جدا ہیں۔اس امارت کے انتشار سے تبلیغی جماعت پاک ہے۔…………حالانکہ اب امت کا یہ دھڑا بھی دو حصوں میں بٹ چکا ہے……… اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو مرکز نظام الدین کا گھیراؤ محض کسی ایک جماعت کا گھیراؤ نہیں ہے بلکہ یہ امت واحدہ کا گھیراؤ ہے۔ یہ اس امت مسلمہ پر شب وخون مارنے کی ناکام کوشش ہے جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ مرکز نظام الدین کو بدنام کرنا جہاں ہم مسلمانان ہند کے لیے حساس مسئلہ بن گیا ہے، اس سے زیادہ بھارت کے نظام اور ملک کے صاحب اقتدار حضرات کو غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ ملک کو مسلم دنیا میں اسلام دشمن ملک کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ہیں؟ ملک کا میڈیا جس تیزی رفتاری کے ساتھ تبلیغی جماعت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے کیا وہ نہیں جانتے کہ مسلم دنیا ان کی یہ مکاری کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے؟ یا پھر خود مسلمانوں کو امت واحدہ کے تصور کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ایک ایسی امت جس کی کوئی حد، کوئی رنگ، کوئی نسل اور کوئی مخصوص ملک نہیں ہوتا بلکہ فقط "الارض للہ والملک للہ والحکم للہ"

-محمد مشتاق فلاحی
 
Article - Apr 02
IMG
بابری مسجد فیصلہ-- ایک جائزہ

بالآخر بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آہی گیا۔ یہ عدل نہیں، نہ انصاف ہے بلکہ سیاسی ظلم کا شاہکار ہے۔ آخر سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے طویل عرصے سے چل رہے سب سے حساس مسئلہ پر فیصلہ دیا ہے۔ آغاز میں یہ تاثر دیا تھا کہ کسی بھی فریق کی آستھا کے مطابق نہیں بلکہ حق ملکیت کے مطابق فیصلہ دیا جائے گا۔ 

فیصلہ

(۱) متنازع زمین 77.2 ایکڑ رام للّا (ہندوؤں )کو دی جائے۔

(۲) حکومت ۳ ماہ میں ٹرسٹ بنائے اور مندر کی تعمیر ہو۔

(۳) مسلمانوں کو 5ایکڑ زمین ایودھیا میں دی جائے۔

اس فیصلہ کو جس بنیاد کی وجہ سے دیا گیا ہے اس کا ذکر بھی مختصراً ضروری ہے۔

(۱) ASIآثارِ قدیمہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

(۲) رام چبوترہ کو جنم استھان تسلیم کیا جانا۔

(۳) رام کی پیدائش کا ایودھیا میں ہونے کی آستھا جو ہندوؤں کی ہے۔

سپریم کورٹ نے شیعہ وقف بورڈ کے دعویٰ کو خارج کیا۔ اسکے بعد نرموہی اکھاڑے کے دعوے کو غیر قانونی قرار دیا۔ سنی وقف بورڈ کو بھی خارج کر دیا۔ اب جو باقی بچا تھا وہ ’’رام للّا براجمان‘‘ اسے باقی رکھا اور اس کے حق کو تسلیم کر لیا گیا۔

الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے جو فیصلہ 2010ء میں دیا تھا اس کی بنیاد ہی ASIکی رپورٹ تھی۔ جس میں کئی چیزیں تھیں جس پر Objection لیا جانا چاہئے تھا لیکن اس پر Objectionنہیں لیا گیا۔ ان ہی کو سپریم کورٹ نے آدھار بنا ڈالا۔ مثلاً کھدائی میں بابری مسجد کے نیچے پرانے Structureکو بتلایا گیا ہے کہ وہ ہندو مندر جیسا ہے۔ جبکہ وہ بدھ وہار کی تعمیرات بھی ہوسکتی ہیں۔ مورتیوں کے ٹکڑے اور سنسکرت لکھی ہوئی پلیٹیں، اسکے علاوہ ہڈیاں، انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے ہیں لیکن ’’ہندو مندر جیسا‘‘ کو آدھار بنایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 1857 سے قبل مسجد میں نماز پڑھنے یا پڑھانے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ جبکہ مسجد مل جل کر نماز پڑھنے کے لئے ہی بنائی جاتی ہے۔ 1857کا دور مسلم دور تھا ۔ کیسے ممکن ہے کہ وہاں نماز نہ ہوتی ہو؟

علی الرغم فیصلے کے سپریم کورٹ نے کچھ Observationبھی کوٹ کئے ہیں۔ جنکا فیصلے میں خیال نہیں کیا گیا۔

(۱) بار بار ’’مسجد‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ (کم از کم 3 1بار) اور آخر میں اسکی زمین ہندوؤں کو دے دی گئی۔

(۲) مسجد کی عمارت کے وجود کو تسلیم کیا گیا۔

(۳) مسجد کے اندرونی حصہ میں نماز پڑھی جانے کو بطور ثبوت تسلیم کیا گیا ہے۔ بالخصوص 1857 سے 1949 تک۔

(۴) ۲۲۔۲۳؍دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات کو مورتیاں لاکر رکھی گئی تھیں۔ FIRوغیرہ کو On Record لیا گیا اور اِسے جرم کہا گیا۔ 

(۵) ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ءکو کار سیوکوں نے مسجد شہید کی اس جرم کو بھی تسلیم کیا گیا ، اسے بھی Recordپر لایا گیا۔

(۶) ASIرپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے یہ صاف کر دیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

ان تمام سچائیوں کو ریکارڈ پر لانے کے باوجود سپریم کورٹ نے مسلمانوں کو ان کی مسجد و زمین سے بے دخل کر دیا۔ قانون کے ماہرین یہ بتلا رہے ہیں کہ ایسا کورٹ نے دفعہ 142 کے ذریعہ حاصل شدہ اختیارات کو استعمال کیا اور یہ فیصلہ دیا۔ کیا اتنے سارے شواہد و ثبوت کی روشنی میں دفعہ 142 کے ذریعہ سپریم کورٹ ایک بنیادی حق سے مسلمانوں کو محروم کر سکتا ہے؟ اس فیصلے کے خلاف دانشوروں ، سابق ججوں، وکیلوں اور ماہرین نے زور دار آوازیں بلند کرنی شروع کر دی ہیں۔ممکن ہے یہ صدائیں بڑھ کر زبردست احتجاج میں تبدیل ہو جائیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ اب مسلمانوں نے بھی اس فیصلہ پر سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ کیرالہ اور دہلی میں عملاً احتجاج بھی ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ان آوازوں میں اپنی آواز ملانی چاہئے اور وقت کے اس پہر کو غنیمت جاننا چاہئے۔ 

مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت العلماء ہند و غیرہم کو نظر ثانی کی اپیل میں جانا چاہئے اور 5 ایکڑ زمین کو یکسر مسترد کر دینا چاہئے۔ کیونکہ مسجد کے بدل میں 5 ایکڑ کیا 50 ہزار ایکڑ زمین بھی نہیں لی جاسکتی۔ اگر بابری مسجد کے بدل میں کچھ بھی قبول کیا جائیگا تو وہ دین و شریعت کے خلاف ہوگا۔

عدالت کے اس فیصلے نے بابری مسجد کے سامنے خود سپریم کورٹ کو کھڑا کر دیا ہے اور نفس مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ یہاں سے اسکی شروعات ہو رہی ہے۔

مسلمانوں کو 6 دسمبر کو پوری مضبوطی اور سنجیدگی سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ بابری مسجد کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔اور اسے دہراتے رہنا چاہئے تاکہ یہ ظلم صدا یاد رہے۔ زخم ہرے رہیں اور اس سے رستا ہوا مواد یہاں کے حکمرانوں ، انصاف کرنے والوں اور نظام چلانے والوں کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرتا رہے۔

یہ فیصلہ ثبوتوں اور دلائل پر نہیں ہندوؤں کی آستھا پر دیا گیا ہے۔ اس لئے مسلمان اسے مسترد کرتے ہیں۔ 

 

ضیاء الدین صدیقی-اورنگ آباد

Article - Nov 25

News & Events

IMG
سمینار بعنوان بابری مسجد فیصلہ! ایک جائزہ.
Event - Dec 06 07:01 - 09:30
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے ،اس فیصلے کے جائزے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔بھارت کی عدالتی تاریخ کا سب سے قدیم اور سب سے حساس مسئلہ کا یوں فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے بہت ساری سچائیوں کو اجاگر کیا ہے لیکن حتمی فیصلہ فریق مخالف کے حق میں دے گیادیا ہے ۔ان سچائیوں کو سمجھنے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔بعض ماہرین قانون ،سابق جج صاحبان ،بڑی عدالتوں کے وکلاء ،انصاف پسند دانشور اور بالخصوص مسلمان اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہے۔ مسجد کا شرعی مسئلہ ہمارے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔جب کوئی اراضی ایک مرتبہ مسجد قرار دے دی جائے وہ ہمیشہ مسجد رہتی ہے ،چاہے اس کی ظاہری شکل و صورت کیوں نہ بدل جائے ۔اس اعتبار سے بابری مسجد ‘مسجد تھی ،مسجد ہے اور انشاءاللہ مسجد ہی رہیگی، اس موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔سپریم کورٹ میں دستاویزات ، ثبوتوں اور دلائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا کی بنیاد پر فیصلہ دیا گیا ہے، جس سے مسلمان شدید ناراض ہیں ۔
مسلم نمائندہ کونسل اورنگ آباد نے 6؍دسمبر 2019  بروز جمعہ ، شام 7بجے مولانا آزاد ریسرچ سنٹر ،مجنوں ہل ،اورنگ آباد میں ایک سمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا عنوان ’’بابری مسجد فیصلہ -ایک جائزہ ‘‘ہے۔ اس سمینار میں مسجد کی شرعی حیثیت ، بابری مسجد کی تاریخی حیثیت اور سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اور اس کا جائزہ ان عنوانات کے تحت ماہرین قانون اور ماہرین شریعت اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں گے ۔ مسلم نمائندہ کونسل کے صدر اور اراکین نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس اہم اجلاس میں مع احباب شریک ہوں ،کیونکہ ’’یاد رکھنا دفاع کا پہلا قدم ہے ۔‘‘
 
IMG  
ممبئی میں وحدت اسلامی کا سیمینار بعنوان " بابری مسجد فیصلہ - ایک جائزہ
 
ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں وحدت اسلامی (ممبئی یونٹ) کی جانب سے "بابری مسجد فیصلہ - ایک جائزہ" کے عنوان کے تحت سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا ۔
جناب کولسے پاٹل نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر رام یا رحیم کے حق میں نہ ہوتے ہوئے نیشنل مونومینٹ کے حق میں ھوتا تو سب کو قابلِ قبول ہوتا ۔ تمام ہندو برے نہیں ہے ، بلکہ چند منو وادی ہے جو ورن ویوستھا کا سسٹم لانا چاہتے ہیں ۔ ہم سب کا DNA ایک ہے جبکہ باہر سے آئے ہوئے برہمن ہے وہ باہر کے شہری ہیں ۔  حالیہ فیصلے کا بیس صرف منووادی ہے ۔ یہ نیائے نہیں ہے بلکہ صرف فیصلہ ہے ۔
 
 آپ اگر ان سے دوستی کرے تو بھی یہ آپ کو مارنے والے ہی ہے ، کیوں نہ ہم لڑ کر مرے ۔ 
 
یوسف مچھالہ صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ فیصلہ دراصل وہ مقدمہ ہے جو مسجد گرانے والوں کے حق میں ہوا ہے، اور مسجد گرانے والوں کی فتح ہے ۔ ہار ہمارے جسٹس سسٹم کی ہوئی ہے قانونی بھی اور اخلاقی بھی ۔ اس فیصلے میں صاف لکھا گیا ہے کہ 1528 کا جو ڈھانچہ تھا وہ مسجد تھی ، جسے 1992 میں ڈھایا گیا ۔  یہ وہی لوگ ہے جو آج مندر بنانے کے لئے ٹرسٹ بنا کر اجازت چاہ رہے ہیں ۔ آستھا کو بھی مان لیا جائے تو کورٹ کا یہ کہنا کہ 1857 تک وہاں نماز کا ثبوت نہیں ہے ، کتنی معصومانہ اور احمقانہ بات ہے ، کیا مساجد ڈیکوریشن کے لئے بنائی جاتی ہے ؟  ہم سپریم کورٹ کا دروازہ پھر کھٹکھٹا رہے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر غور کریں ۔ کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو خوش آمدید کیا صرف امن و شانتی کے لئے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مستقبل میں کئی جگہوں کی آگے آپ کو قربانی دینی پڑ سکتی ہے ۔ امن وامان بنائے رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ہم پر جو الزام تھا کہ ہم نے مندر توڑ کر مسجد بنائی وہ خود بخود منہدم ہو گیا اور سپریم کورٹ نے مانا کہ مسجد توڑ کر مندر بنایا جائے گا ۔ ہماری قانونی ہار ہوئی ہے مگر اخلاقی فتح ہماری ہی ہے ، ہمیں مایوس نہیں ہونا ہے ۔
 
جناب سلیم خان صاحب نے فرمایا کہ عدالت پر جو دباؤ ہوتا ہے اسے ہم نے اس فیصلہ میں محسوس کیا ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آبزرویشن کوئی اور کر رہا ہے اور فیصلہ کوئی اور لکھ رہا ہے ۔  سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ 1528 سے 1857 تک مسجد تھی مگر نماز کا ثبوت نہیں ہے ، ایسا ہی ہے کہ ٹرین تھانے اور ممبئی کے درمیان چلی مگر ڈرائیور کے بارے میں کوئی خبر نہیں ۔ مسجد کو ڈھانے والوں کے لئے سزا بھی ضروری ہے ، جس کے لئے ہمارے قائدین کو آخر تک لڑنا ہوگا ۔ آخری بڑی عدالت ابھی باقی ہے ،جہاں ظلم نہ ہوگا ، ان شاءاللہ ۔
 
جناب ضیاالدین صدیقی صاحب نے فرمایا کہ جن لوگوں نے مسجد توڑی ہے انھی لوگوں کو مندر کے ٹرسٹ میں شامل کیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہمارے جسموں پر تو نافذ ہو سکتا ہے مگر ہمارے دلوں پر نہیں ۔ سپریم کورٹ خود بابری مسجد کی عدالت میں کھڑی ہے ۔ مغلوں ، اودھ اور برٹش حکومتوں کے اخراجات کے گوشوارے موجود ہیں ، مسلمانوں کو کسی ثبوت کے دینے کی  ضرورت نہیں ۔ ہم نے اس فیصلے کو برداشت کیا اور لا اینڈ آرڈر کو ملحوظ رکھا اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری خاموشی کا امتحان لیا جائے ۔ رام للا کو ہم نے تسلیم کیا یہ ہماری غلطی رہی ۔ سولہویں صدی تک ایودھیا کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا تو ہم نے اس کے وجود کو تسلیم ہی کیوں کیا ؟؟ ہم نے تاریخ میں اگر غلطی کی ہے تو ہم نے اس سے رجوع بھی کیا ہے ۔
 
صدارتی گفتگو میں مولانا ابو ظفر ندوی صاحب نے فرمایا کہ آپ یہ کیوں یہ سمجھتے ہےکہ یہ آخری فیصلہ ہے، تاریخ میں غلطياں ہوتی ہے مگر تاریخ اپنی اصلاح بھی کرتی ہے ۔ لوٹ و غنڈہ گردی چند لوگ کرتے ہیں مگر لاکھوں شرفاء کہاں غائب رہتے ہیں ۔ بابری مسجد نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے ۔ یہ فیصلہ انسانیت کی توہین ہے ۔  بڑی بڑی تہذیبیں آئی اور ختم ہوگئی ۔ کسی چیز کو پانے کے لئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے ۔

 

Dec 05
IMG  
بابری مسجد: مسلم پرسنل لا بورڈ داخل کرے گا نظر ثانی کی درخواست

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی ) نے اتوار کو فیصلہ کیاہےکہ وہ ایودھیا زمینی تنازعہ سے متعلق معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دیتے  ہوئے نظر ثانی کی درخواست داخل کریں گے۔ اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں اے آئی ایم پی ایل بی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا۔

اے آئی ایم پی ایل بی کے ممبر ایس کیوآر الیاس نے میٹنگ کے بعد میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے ریویو پیٹنشن دائرکرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہامسجد والی زمین کے علاوہ  ہم کسی اور زمین کو قبول نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے دی گئی زمین قبول نہیں کی جائےگی۔‘‘

اے آئی ایم پی ایل بی کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا ’’شرعی وجہوں سے دوسری جگہ پر مسجد کی زمین قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں وہی زمین چاہیے، جس کے لیے لڑائی لڑی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کئی تضاد ہیں۔ جب باہر سے لاکر مورتی رکھی گئی تو انہیں دیوتا کیسے مان لیا گیا؟ جنم استھان کو قانونی فرد نہیں مانا جا سکتا۔ گنبد کے نیچے جنم استھان کا ثبوت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے مانا ہے کہ وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ ہمیں 5 ایکڑ زمین نہیں چاہیے۔ 30 دن کے اندر ریویو فائل کرنی ہوتی ہے، جو ہم کر دیں گے۔‘‘

ایک دوسرے فریق اقبال انصاری کے بارے میں پوچھے جانے پر ظفریاب جیلانی نے الزام لگایا کہ اقبال انصاری پر ضلع اور پولیس انتظامیہ دباؤ ڈال رہی ہے۔

انہوں نے کہا ’’اقبال انصاری اس لیے ریویو کی  مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ انتظامیہ اور پولیس کا ان پر دباؤ ہے۔ لکھنؤ ضلع انتظامیہ  نے ہمیں بھی میٹنگ  کرنے سے روکا اس لیے ہمیں آخری وقت  پر جگہ بدلنی پڑی۔ پہلے یہ میٹنگ ندوہ کالج میں ہونی تھی لیکن بعد میں اس کوممتاز کالج میں کرنا پڑا۔‘‘

اس بیچ جمعیت علماے ہند نے بھی ایودھیامعاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کوچیلنج  دینے کے لیےنظر ثانی کی درخواست داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعیت کےصدر ارشد مدنی نے اس کی جانکاری دی۔ یہ فیصلہ اتوار کو جمعیت کی ورکنگ کمیٹی  کی میٹنگ میں لیا گیا، جس نے ریویو پٹیشن  دائر کرنے کے لیے اپنی منظوری دے دی۔ جمعیت نے جمعہ کو فیصلے میں ایک ریویو پٹیشن دائر کرنے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی  کی تشکیل  کی تھی۔

خبررساں ایجنسی اے این آئی  کے مطابق مدنی نے کہا ’’اس سچائی کے باوجود جوکہ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ہماری عرضی 100 فیصدی خارج کر دی جائےگی، ہمیں عرضی  دائر کرنی چاہیے۔ یہ ہمارا حق ہے۔‘‘ مدنی نے جمعرات کو فیصلے کو چونکانے والا بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اتر پردیش سنی وقف بورڈ کا خصوصی اختیار  تھا کہ وہ 5 ایکڑ زمین کو قبول  کرے یا نہ کرے۔ حالانکہ جمعیت کی ورکنگ کمیٹی  کا فیصلہ تجویز کو رد کرنے کا تھا کیونکہ اس طرح کے عطیہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا ’’ایک بار ایک مسجد کی تعمیر کے بعد وہ آخر تک ایک مسجد رہتی ہے۔ تو بابری مسجد تھی، ہے اور مسجد رہےگی۔ حالانکہ اگر سپریم کورٹ نے کہا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑنے کے بعد بنائی گئی تھی تو ہم اپنا دعویٰ چھوڑ دیں گے۔ اس کے علاوہ اگر ہمارے پاس دعویٰ نہیں ہے تو ہمیں زمین کیوں دی جائے؟ یہی وجہ  ہے کہ یہ سپریم کورٹ  کا ایک چونکانے والا فیصلہ ہے۔‘‘

وہیں ہندو مہاسبھا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں صرف مقدمے میں شامل فریق  ہی ریویو پٹیشن داخل کر سکتے ہیں۔ بورڈ اس معاملے میں پارٹی نہیں ہے، اس لیے اس کو  عرضی داخل کرنے کاحق  نہیں ہے۔

اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے وکیل ورن سنہا نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ایودھیا تنازعہ  میں فریق  نہیں ہے، اس لیے اس کو سپریم کورٹ میں ریویو داخل کرنے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا صرف معاملے سے متعلق  فریق  ہی ریویو داخل کر سکتے ہیں۔ اے آئی ایم پی ایل بی اس معاملے میں فریق  نہیں ہے۔ اس معاملے میں سنی وقف بورڈ فریق  ہے اور ریویو داخل کرنے کے بارے میں صرف وہی فیصلہ لے سکتا ہے۔

اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے وکیل ورن سنہا نے سپریم کورٹ کےفیصلے میں غلطیاں ہونے کی بات بھی خارج کی۔

واضح ہو کہ 9 نومبر کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد زمینی تنازعہ  پر اتفاق رائے سےفیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ  زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندوفریق  کو زمین دینے کو کہاتھا۔ ایک صدی سے زیادہ  پرانے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ملےگا۔ وہیں سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دی جائےگی۔

مندربنانےکے لیے مرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانا ہوگا اور اس ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑا کا ایک ممبر شامل ہوگا۔عدالت  نے کہا کہ متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین اب مرکزی حکومت  کے  پاس رہےگی جو اس کو سرکارکے ذریعے بنائے جانے والے ٹرسٹ کو سونپےگی۔

(ایجنسیاں)

Nov 17

Press Release