Home Campaign اس آزمائش میں سماجی فاصلہ کے ساتھ سماجی معاشی نفسیاتی تحفظ کیسے ہوگا۔؟
Campaign

اس آزمائش میں سماجی فاصلہ کے ساتھ سماجی معاشی نفسیاتی تحفظ کیسے ہوگا۔؟

کورونا  آزمائش کی سختیوں کا مرحلہ زیادہ سخت ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے ملت اسلامیہ ہند  کو مستقل اپنی حکمت عملی پر غور کرتے رہنا ہوگا، اور حالات کے لحاظ سے حکمت عملی بنانی ہوگی۔ کورونا سے بالواسطہ اوربلا واسطہ نقصانات و آزمائش الگ الگ ہیں۔ افراد کا بیماری سے متاثر ہونا ، ہسپتالوں میں بھرتی ہونا اور خداناخواستہ ہلاکت کی صورت میں تدفین تک کے لیے مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ کوارنٹین کے الگ الگ قواعد بھی بہت مسائل پیدا کررہے ہیں۔ ایسی سنگین صورتحال کو مزید سنگین ملک کی معاشی کمزور حالت، بیروزگاری؛ مہاجرت اور  فاقہ کشی نے بنادیا ہے۔ کورونا متاثر یا مشکوک فرد کی ٹسٹ سے لیکر  بھرتی تک ہر مرحلہ پر مختلف سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ مسلمانوں سے خصوصی تفریق کی رپورٹ بھی چورو، میرٹھ، کانپور، نوئیڈا، وغیرہ سے آرہی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمانوںکی کوئی بھی مرکزی قیادت نہ انفرادی اور نہ اجتماعی منظم کوشش کررہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ خوراک رسانی کا کام ان جماعتوں اور امیر الہند کے کھاتہ میں جاسکتا ہے۔ مگر کوئی بھی اجتماعی کوشش مرکزی طور سے ایک وفاق بنا کر مسائل کو حل کرنے کی  نہیں ہوئی۔ ہر ایک اپنے طور پر امیر الہند بنا ہوا ہے اور اردو اخباروں میں فوٹو و پریس ریلیز شائع کراکر ملت کے ’’جسد واحد‘‘ ہونے کے تقاضہ پورے کررہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ مرکزی سرکار کے داخلہ محکمہ اور وزارت برائے صحت و خاندانی بہبود سے بات تک نہیں کررہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے مرحلہ وار کھولنے سے قبل مساجد میں اقامت صلوٰۃ کو لیکر اپنا موقف نہیں رکھاگیا۔جبکہ حکومتی رہنمائی نامکمل یا غلط اطلاعات کی بنا پر جاری کی جارہی ہیں ۔اسی لیے ان میں تیزی  سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ہمارے مرکزی بزعم خود رہنما اس تعلق سے اپنے علم کو Update  کرتے رہتے تو وزارت صحت CMR Iکو اپنا موقف سمجھاسکتے تھے۔ خصوصاً مساجد میںمصلیان کی تعداد کو لیکر صوبائی حکومتوں کا رویہ سائنس سے زیادہ لاعلمی یا تعصب پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔۵ افراد کی قید مساجد میںکیوں ہے جبکہ وہاں زیادہ سے زیادہ ۵-۷ منٹ کا  وقت فرض نمازوں میںلگتا ہے۔ مگر سرکاری آفسوں؛ عدالتوں ؛کچہریوں؛ نگر نگم، بینکوں، مقامی ذرائع نقل و حمل Transport میں گھنٹوں، گھنٹوں لوگ ساتھ بیٹھ رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھانا تھا کہ دوسرے مذاہب  کے بر خلاف اسلام میں نماز بہت الگ مقام رکھتی ہے۔ یہ باجماعت فرض ہے۔ اس میں طہارت؛ وضو کے مسئلہ ہیں،جو کہ کورونا سے لڑائی میں معاون ہیں۔ انسانون میں قوت مدافعت اور مزاحمت Immunity or resistanceپیدا کرتی ہے۔ مرض سے لڑنے کے لیے درکار حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ جسمانی طہارت کا موثر ترین ذریعہ ہے اور یہ ہر حال میں فرض ہے۔ اس کے بجائے ہمارے خود ساختہ مدعیان رہنمائی حکومتی اقدامات کی پابندی کا راگ الاپ کر خو شنو دی بھی حاصل کررہے ہیں اور کچھ کئے بغیر قائد ملت بھی بنے ہوئے ہیں۔ حکومتی ہدایات جارہی ہونے سے قبل کے مرحلہ میں اُن سے گفت و شنید اور اطلاعات کے تبادلہ کے ذریعہ ان کو یقینا قائل کیا جاسکتا تھا کہ وہ مساجد میں تعداد کو محدود نہ کریں بلکہ ان کو احتیاطی تدابیر کی پابندی کے لیے پابند کرتے۔ دنیا بھر میں کورونا کو لیکر تکنیکی معلومات نہایت ناقص اور تغیر پذیر ہیں۔ اور بہت سی معلومات نہیں بلکہ ان حالات میں بھی مالی استحصال کاذریعہ بھی ہیں۔ کورونا سے لڑنے کو لیکر Vaccineکی آمد تک ’’فاصلہ‘‘ اور طہارت Senetization ہی ہتھیار ہیں۔ مگر برطانیہ اور دیگر یوروپی و کچھ مسلم ممالک اجتماعی قوت مدافعت Herd Immunity کو ہی مرض سے مقالہ کی واحد صورت بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا کے ۷۰۔۸۰ فیصد  لوگوں کو اس جرثومہ Virus کی ہلکی سی عفونت LowLevel infection نہیں ہوتی عمومی آبادی اس کا مقابلہ نہیں کرپائیگی۔ ویکسین کے آنے کے بعد بھی دنیا کی ۸۔۷ارب آبادی کو اس کا دستیاب ہونا ناممکن ہے۔ حکومتیں اگر مصیبتوں میں بھی منافع کمانے والوں کے چنگل مین نہیں ہیں جو =/۱۵  روپیہ کا ماسک=/۸۰۰-۳۵۰ روپیہ میں فروخت کررہے ہیں تو حکومتوں کو غلط اور گمراہ کن اطلاعات کی مہاماری سے خود کو بھی بچانا ہوگا اور عوام کو بھی بچانا ہوگا۔ کورونا کی بیماری کا حل پانے کے بعد انشاء اللہ جب اس کی تاریخ لکھی جائیگی تو اس کے سنہرے ابواب کے مقابلہ سیاہ ابواب بھی ہونگے جن میں رقم ہوگا کہ کس طرح جان بوجھ کر غلط اطلاعات اور اعداد و شمار کے ذریعہ حکومتی فنڈ اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ وینٹی لیٹر کے نام پر گھٹیا آلات خریدے گئے۔ وغیرہ
سردست امت مسلمہ کے لیے خصوصاً اور پوری نوع انسانی کے کمزور طبقوں کے لیے عموماً اہم ترین مسئلہ بھوک، بیروزگاری، مہنگائی اور بیماری کے علاج کا ہے۔ یہ طبقہ دنیا کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہے اور ترقی پذیر یا غریب  و انتہائی  غریب  ممالک سے تعلق رکھتا ہے۔ ان ممالک کے پاس اتنے بڑے طبقہ کے سماجی تحفظ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اگر ہوگا تو انتہائی قلیل و غیر مفید ہوگا۔ تمام بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ سماجی تحفظ کا مسئلہ سنگین بحران میں تبدیل ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی آبادی فاقہ کشی؛ ناقص تغذیہmalnutrition؛  دیگر مہلک تغذیہ کا شکا ہوگی اور ہتھیاروں مقابلہ حسن، عالمی فٹ بال؛ کرکٹ ٹورنامنٹ؛ کار ریس؛ IPL اور اولمپک جیسی تفریحات اور انسانی تباہی  کے آلات پر تو کھربوں ڈالر خرچ کرسکتی ہے مگر غربت کی ماری اتنی عظیم انسانی آبادی کے لیے ان گھڑیالوں کے پاس خزانہ نہیںہوتے۔ اقوام متحدہ  کے سکریٹری جنرل کا بیان انتہائی سنگین حالات کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس  Gouteres نے کہا’’دنیا کو فوری اقدامات کرنے ہونگے۔روزانہ یہ واضح ہوتا  جارہا ہے کہ ایک عالمی غذائی بحران ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ جس کے طویل المدت برے اثرات دنیا کے لاکھون نوجوانوں اور بچوں پر پڑینگے۔ دنیا میں ضرورت سے زیادہ غذائی اجناس موجود ہیں جو کہ کل آبادی ۸۔۷ ارب لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ مگر آج ۸ کروڑ ۲۰ لاکھ لوگ بھوکے ہیں۔ اور ایک کروڑ ۴۴ لاکھ بچہ یعنی ۵ سال تک کے عمر کے ہر ۵ بچہ پر ایک  بچہ نشو و نما میں ٹھٹھرن Stunted growth کا شکار ہے ۔ہمارا غذائی نظام ناکام ثابت ہورہا ہے(دی ٹریبون چنڈی گڑھ۲۰/۰۶/۱۱)
دنیا کے سب سے  اعلیٰ دنیاوی سرپرست کا بیان حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ وہ یہ بھی بتارہا ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی کمی نہیں ہے۔ اناج اور اجناس موجود ہیں ،گوداموں اور منڈیوں میں سڑ رہے ہیں۔ مگر ضرورتمندوں تک نہیں پہونچ رہے ہیں ۔ بھارت میں ریکارڈ گندم کی پیدا وار ہوتی ہے۔ گوداموں میں بغیر اسٹاک  بھی وافر مقدار میں ہے مگر ضرورتمندوں تک نہیں پہونچ رہا ہے۔ اس میں سے ملک کے غریبی کی سطح سے نیچے کے لوگون کو پورا اناج دینے سے اسٹاک کا %۳ بھی خرچ نہیں ہوگا مگر یہ نہیں ہورہا ہے۔ ماہرین کہہ رہے کہ اگر ضرورتمند خاندانوں تک ہر ماہ  =/۷۰۰۰ روپیہ کی رقم  سیدھے  اکاونٹ میں منتقل کریں تو صرف ۳ ماہ کا خرچ GDP کا بہت قلیل حصہ =/۶۰۰۰۰ کروڑ روپے ہوگا۔  جب وہ خرید نہیں رہے تو مال فروخت کیے ہوگا؟ مال فروخت نہیں ہوگا تو کارخانہ کیسے چلیں گے۔ کارخانہ نہیں چلیں گے تو نوکری کہاں سے پیدا ہوگی؟؟؟
مزدوروں، پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والوں، کسی بھی طرح کی تجارت سے جڑے لوگ کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ کمالیںگے ۔ایک کام کے بجائے دوسرا کام کرکے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرلیں گے ۔حکومت سے BPL راشن کارڈ پر اناج مل جائیگا مگر کروڑوں وہ لوگ جو پڑھے لکھے بیروزگار ہوگئے ہیں، اسکولوں کے، مدرسوں کے اساتذہ: ITسیکٹر میں اوسط درجہ کی نوکریاں کرنے والے پارٹ ٹائم کام کرنے والے؛ پرائیوٹ سیکٹر میں ۱۰-۲۰ ہزار کی نوکری کرنے والے کروڑوں سفید پوش بیروزگار ہوکر فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں۔ کرایہ کا مکان: دوپہیہ سواری؛ معیاری لباس و رکھ رکھاؤ کے باوجود آج بیروزگار ہوگئے ہیں۔ ان کے لئے نہ منریگا MENREGA ہے نہ پنشن نہ بیروزگاری الاؤنس نہ کوئی اور سہارا ہے۔ ان کے پاس کیا دنیاوی سہارا  ہے؟؟ ایسے تمام کروڑوں افراد اور ان کے اہل خانہ کے  لئے روشنی کی کرن یا تنکے کا سہارا کیا ہے؟  یہ کوئی فرضی یاخیالی مفروضہ نہیں ہے۔ یہ روزانہ کی زندگی کے پچھلے ۳ ماہ کی ریلیف، ذاتی اورملک گیر پیمانے کی ریلیف کے کاموں کے احساسات ہیں، تجربہ ہیں  جن سے ہم سب گذرے ہیں۔ ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر محنت، مزدوری، تجارت کرنے والوں کی کروڑوں کی تعداد گھر  تو اگئی ہے مگر اب کھائیگی کیا؟ اگر گھر پر گاؤں میں آمدنی کے زندہ رہنے لائق ذرائع ہوتے تو پردیس کی ٹھوکریں کیوں کھاتے؟ غریبوں کی گھروں میں بیٹھی کنواری بچیوں کی نکاح ، رخصتی سب اٹک جائیگی ۔ایسے میں خود ان بچیوں اور ان کے والدین کی زندگی کیا کسی جہنم سے کم ہوگی؟ ایک بڑا مسئلہ نفسیاتی امراض، تناؤ اور مایوسی Depression اور خودکشی کے بڑھتے رجحان کا پیدا ہورہا ہے۔ اور آگے اس رجحان کے بڑھنے کے خدشات قوی تر ہیں۔
اس طرح کے حالات۱-۲ سال تک بنے  رہنے کے امکانات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں امت مسلہ کیا امدادی، ہنگامی تدابیر کرسکتی ہے، تاکہ اس بحران کے سنگین نتائج سے نجات مل سکے۔ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور خلفاء راشدین کے اسوہ کی روشنی میں کام کرنیکی ضرورت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے حقوق العباد کے ضمن میں جو تعلیمات اور اسوہ دیا ہے، قرآن پاک میں ضرورتمندون ،محروموں، مسکین ویتامی کی مدد تاکیدی انداز میں کی ہے، وہ ہمیں ایک بار دہرانے کی ضرورت ہے۔  ایک حدیث میں آپ نے فرمایا ’’فقر انسان  کو ارتداد  تک پہونچاسکتا ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ پاک نے محرومون اور مجبوروں کو کھلانے، پہنانے اور پلانے کو خود اپنے آپ کو کھلانے، پہنانے اور پلانے سے تشبیہ  دیکر کام کی عظمت بتائی ہے۔ ملت کے جسد واحد ہونے کا بھی تقاضہ ہے کہ ہم ملت کے کمزوروں کی اس شدید احتیاج اور ضرورت کے وقت مدد کریں۔ ہمیں یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے، ملکی اور بیرونی سرکاری غیر سرکاری ادارہ دنیا بھر میں  یہاں  تک کہ مسلم اکثریتی ممالک  انڈونیشا، بنگلہ دیش اور پاکستان تک میں مشنریوں اور ایڈ ایجنسیوں کے ذریعہ  ایمان  خرید رہے ہیں ،جب کہ حالات نارمل تھے۔  اب تو حالت شدید ہیں۔ ایسے میں ہر جگہ یہ خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں کچھ اشارہ  تجربہ کی روشنی اور مشاہدہ کے ذریعہ پیش خدمت ہیں۔ بقیہ اپنے اپنے مقام کے حالات کے پیش نظر طریقے اختیار  کیے جاسکتے ہیں:
۱- سرکاری امداد کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ ہر طرح کے راشن کارڈ؛ لیبررجسٹریشن کرانے میں ملت کے پڑھے لکھے نوجوانون اور محلہ کی مساجد کے ائمہ کو مل کر مدد کرنی ہوگی۔راشن کارڈ بنوانے بہت ضروری ہین چاہے تھوڑا بہت سرکاری خرچ بھی ہو۔ بیوہ پنشن، معذور پنشن، بچیوں کے وظیفے، سرکاری تعلیمی وظائف کے حصول سے متعلق جانکاری اور عملی رہنمائی ضروری ہے۔
۲- تمام  مسلم تنظیموں کو جہاں ممکن ہو ملکر  نہیں تو فرداً فرداً اپنے کیڈر (اراکین) کے ذریعہ امدادی کام منظم کرنا چاہئے۔ ہر صاحب حیثیت آدمی تھوڑا بہت تعاون کرے اور محلہ کا نظم محلہ کی ہی دیکھ بھال کرے ۔صاحب اسطاعت افراد خصوصاً سرکاری ملازمین سے خصوصی  ربط کرکے ان سے تعاون حاصل کیا جائے۔ زکوٰۃ کی رقم ایڈوانس ہر ماہ قسطوں میں لی جا سکتی ہے۔ کوئی ساتھی نہ  ہو تو اکیلے کام شروع کردیں۔
۳- مدارس کو اجناس (غلہ، سبزیاں، گوشت) وغیرہ کی شکل میں مدد کے قدیم نظام کی اپنانا ہوگا تاکہ طلبا کے طعام کا مسئلہ حل ہوسکے۔ اناج یا جنس کے ذریعہ تعاون یا ان کی فروخت کرکے اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں۔
۴- پورے ملک میں اوقاف کی شکل میں بے اندازہ  بیش قیمت سرمایہ عموماً ضائع ہورہا ہے۔ کیونکہ اکثر یاتو متولی بے ایمان ہیں یا نااہل ہیں۔ وقف بورڈوں میں سیاسی تقرریوں کی وجہ سے اپنے خوشامدیوں کو  اوپر سے نیچے  تک متولی بنایا جاتا ہے۔ ان بیش قیمت اثاثوں سے پورا فائدہ اٹھانا فرض ہے۔ عوامی دباؤ بنا کر مساجد ؛ درگاہوں، مزاروں کی آمدنی پر مسٹنڈوں، موالییوں، نشہ بازوں کو پالنے کے بجائے ملگ کی ضرورتمند ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، معذوروں، مسکینون کی خوراک، دواء  علاج، تعلیم پر  خرچ ہونا چاہئے۔ مساجد وقف علی الخیر کا حصہ ہیں۔ وقف کی زائد آمدنی سے مساجد کے اخراجات کے علاوہ مندرجہ ذیل بالائی امور انجام دینے چاہئے۔ وقف املاک کو سب سے زیادہ مسلمان  ہڑپتے ہیں۔ انہیں کم سے کم اس شدید دقت میں مارکیٹ ریٹ سے کرایہ ایمانداری سے ادا کرکے غرباء مساکین کی مدد کرنی چاہیے۔
۵- ان سب کے ساتھ لاک ڈاؤن  کے فرصت  کے اوقات موبائل، نیٹ،  سیریل، پتنگ بازی، گپ شپ کے بجائے دینی معلومات؛ تجوید، نماز و طہارت کے مسائل، طریقہ واذکار ، حلال و حرام  کے احکامت کو سیکھنے سکھانے کا عمل گھر گھر میں شروع کردیاجائے۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے کم آواز پر صبح و شام آدھے آدھے گھنٹے یہ کام امام صاحبان کرسکتے ہیں۔ یہ حالات کے دھارے  پر بہنے  کا وقت نہیں ہے۔ حالات کے دھارے گو اپنے حق میں کرنے کا ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ توبہ، استغفار، توکل علی اللہ ہرحال میں ضروری ہے۔
 
ڈاکٹر اجمل فاروقی
۱۵۔گاندھی روڈ، دہرہ دون
فون:۹۰۶۸۵۲۲۸۵۱
 

 

Share:
Share Tweet Share

Leave a Comment