ہم نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تتلاتے دیکھا ہے۔بچوں کی زبان سے تتلانا ان کے بچپن کی پیاری حرکتیں ہوتی ہیں جو ہر ذی روح انسان کو نہ صرف خوش کرتی ہے بلکہ اگر باپ ہو تو دن بھر کی تکان کو لمحوں میں خوشی ومسرت میں تبدیل کردیتی ہے۔تتلانے کی اس عادت کو بچہ اگر لڑکپن میں بھی باقی رکھے تو وہی والدین فکر مندی کا شکار ہوجا تے ہیں اور ماہر طبیب کی تلاش کرتے ہیں کہ بچہ کا یہ نقص فوراً دور ہو۔گویا بچپن کا بچپنہ لڑکپن میں معیوب ہوجاتا ہے بلکہ والدین کے لیے فکر مندی اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔
اگر یہی تتلاپن کسی ایسے شخص میں آجائے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اہم ستون میڈیا کی نمائندگی کرتا ہوتو آپ کیا کہیں گے؟میں بات کررہا ہوں ”دیپک چورسیا“کی جو ایک ٹی وی چینل پر تبلیغی جماعت کوطالبانی جماعت کہہ کر پکار رہے تھے۔اور بالکل ایک نٹ کھٹ بچے کی طرح جب توجہ دلائی گئی تو سرے سے انکار ہی کردیا۔
بھارت میں کورونا جس دھیمی رفتار سے چل رہا تھا،دہلی حکومت اور ملک کے مرکزی نیوز چینلوں کے دانستہ طور پر مرکز نظام الدین کو ہدف بنانے کے بعد اپنی پوری تیزرفتاری کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے اور اب وہ اندیشے سچ ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو بین الاقوامی صحت عامہ کے ادارے نے ظاہر کیے تھے۔گویا کورونا کو بھارت میں کسی ایسے مذہب کی تلاش تھی جو اپنے حریف کی دشمن کا شکار ہو،وہ دشمن ملکی میڈیا نے اسے مہیا کرادیا۔اب ملک کے طول وعرض میں پوری سرگرمی کے ساتھ یہ پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے کہ ملک میں کورونا مسلمانوں کے ذریعہ پھیل رہاہے۔
دراصل ملک کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے ہندوتوا نامی جس خوں آشام بھیڑیے کے منہ کو مسلمانوں کا خون لگادیا ہے،اب یہ ان کی مجبوری ہے کہ وقتاً فوقتاً اس بھیڑیے کو غذا مہیا کراتے رہیں۔مرکز نظام الدین کو بدنام کرنے کے پیچھے دراصل یہی سوچ کام کررہی ہے۔
مرکز نظام الدین کے خلاف اس جھوٹ کا مقابلہ خود تبلیغی جماعت کی مرکزی قیادت کو سامنے آکر کرنا ہوگا۔ تاکہ مسلم قیادت ان کے شانے سے شانہ ملا کر ساتھ دے سکے۔
جھوٹ کے اس پلندے کے ساتھ مسلم دانشوران و علماء کرام کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آخر تبلیغی جماعت جیسی بے ضرر، نماز و روزہ کی دعوت دینی والی اور سیاست کی س سے بھی نابلد جماعت سے بھلا حکومت کو کیا بیر ہوسکتا ہے۔ایسی جماعت جس کی چلت پھرت میں مسلم معاشرے کے وہ لوگ زیادہ حصہ لیتے ہیں جو سماج کے نچلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں،جن سے یہاں کے اسلام سے بیر رکھنے والوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔اس سوال کے جواب کے لیے آپ کو تبلیغی جماعت کی جماعتی ترکیب پر غور کرنا ہوگا۔آج پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی غلبہ دین اورمسلمانوں کی اصلاح وتربیت کی کوششیں ہورہی ہیں وہ سب قومی، ملکی اور قانونی حدود کے پابند ہیں۔بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ امت واحدہ کا تصور ناپید ہوچکا ہے یا کم از کم عملی طور پرناکام ہوچکا ہے۔سب جماعتوں کی اپنی مجبوریاں ہیں، اپنا دائرہ کار،طریقہ کار،اور حدود کی پابندیاں ہیں۔یہ سارا انتشار اس کے باوجود ہے کہ ان میں فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔مثلاً اخوان المسلمون تقریبا پوری عرب دنیا میں پائی جاتی ہے، جماعت اسلامی کم وبیش پوری مسلم وغیر مسلم دنیا میں پائی جاتی ہے۔اس کے باوجود سب ملکی حدود اور وہاں کے قانون کے پابند ہیں۔ان پابندیوں ہی کی وجہ سے ان کے امراء بھی جدا جدا ہیں۔اس امارت کے انتشار سے تبلیغی جماعت پاک ہے۔…………حالانکہ اب امت کا یہ دھڑا بھی دو حصوں میں بٹ چکا ہے……… اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو مرکز نظام الدین کا گھیراؤ محض کسی ایک جماعت کا گھیراؤ نہیں ہے بلکہ یہ امت واحدہ کا گھیراؤ ہے۔ یہ اس امت مسلمہ پر شب وخون مارنے کی ناکام کوشش ہے جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ مرکز نظام الدین کو بدنام کرنا جہاں ہم مسلمانان ہند کے لیے حساس مسئلہ بن گیا ہے، اس سے زیادہ بھارت کے نظام اور ملک کے صاحب اقتدار حضرات کو غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ ملک کو مسلم دنیا میں اسلام دشمن ملک کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ہیں؟ ملک کا میڈیا جس تیزی رفتاری کے ساتھ تبلیغی جماعت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے کیا وہ نہیں جانتے کہ مسلم دنیا ان کی یہ مکاری کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے؟ یا پھر خود مسلمانوں کو امت واحدہ کے تصور کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ایک ایسی امت جس کی کوئی حد، کوئی رنگ، کوئی نسل اور کوئی مخصوص ملک نہیں ہوتا بلکہ فقط "الارض للہ والملک للہ والحکم للہ"
-محمد مشتاق فلاحی