Home Article بابری مسجد فیصلہ-- ایک جائزہ
Article

بابری مسجد فیصلہ-- ایک جائزہ

بالآخر بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آہی گیا۔ یہ عدل نہیں، نہ انصاف ہے بلکہ سیاسی ظلم کا شاہکار ہے۔ آخر سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے طویل عرصے سے چل رہے سب سے حساس مسئلہ پر فیصلہ دیا ہے۔ آغاز میں یہ تاثر دیا تھا کہ کسی بھی فریق کی آستھا کے مطابق نہیں بلکہ حق ملکیت کے مطابق فیصلہ دیا جائے گا۔ 

فیصلہ

(۱) متنازع زمین 77.2 ایکڑ رام للّا (ہندوؤں )کو دی جائے۔

(۲) حکومت ۳ ماہ میں ٹرسٹ بنائے اور مندر کی تعمیر ہو۔

(۳) مسلمانوں کو 5ایکڑ زمین ایودھیا میں دی جائے۔

اس فیصلہ کو جس بنیاد کی وجہ سے دیا گیا ہے اس کا ذکر بھی مختصراً ضروری ہے۔

(۱) ASIآثارِ قدیمہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

(۲) رام چبوترہ کو جنم استھان تسلیم کیا جانا۔

(۳) رام کی پیدائش کا ایودھیا میں ہونے کی آستھا جو ہندوؤں کی ہے۔

سپریم کورٹ نے شیعہ وقف بورڈ کے دعویٰ کو خارج کیا۔ اسکے بعد نرموہی اکھاڑے کے دعوے کو غیر قانونی قرار دیا۔ سنی وقف بورڈ کو بھی خارج کر دیا۔ اب جو باقی بچا تھا وہ ’’رام للّا براجمان‘‘ اسے باقی رکھا اور اس کے حق کو تسلیم کر لیا گیا۔

الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے جو فیصلہ 2010ء میں دیا تھا اس کی بنیاد ہی ASIکی رپورٹ تھی۔ جس میں کئی چیزیں تھیں جس پر Objection لیا جانا چاہئے تھا لیکن اس پر Objectionنہیں لیا گیا۔ ان ہی کو سپریم کورٹ نے آدھار بنا ڈالا۔ مثلاً کھدائی میں بابری مسجد کے نیچے پرانے Structureکو بتلایا گیا ہے کہ وہ ہندو مندر جیسا ہے۔ جبکہ وہ بدھ وہار کی تعمیرات بھی ہوسکتی ہیں۔ مورتیوں کے ٹکڑے اور سنسکرت لکھی ہوئی پلیٹیں، اسکے علاوہ ہڈیاں، انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے ہیں لیکن ’’ہندو مندر جیسا‘‘ کو آدھار بنایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 1857 سے قبل مسجد میں نماز پڑھنے یا پڑھانے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ جبکہ مسجد مل جل کر نماز پڑھنے کے لئے ہی بنائی جاتی ہے۔ 1857کا دور مسلم دور تھا ۔ کیسے ممکن ہے کہ وہاں نماز نہ ہوتی ہو؟

علی الرغم فیصلے کے سپریم کورٹ نے کچھ Observationبھی کوٹ کئے ہیں۔ جنکا فیصلے میں خیال نہیں کیا گیا۔

(۱) بار بار ’’مسجد‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ (کم از کم 3 1بار) اور آخر میں اسکی زمین ہندوؤں کو دے دی گئی۔

(۲) مسجد کی عمارت کے وجود کو تسلیم کیا گیا۔

(۳) مسجد کے اندرونی حصہ میں نماز پڑھی جانے کو بطور ثبوت تسلیم کیا گیا ہے۔ بالخصوص 1857 سے 1949 تک۔

(۴) ۲۲۔۲۳؍دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات کو مورتیاں لاکر رکھی گئی تھیں۔ FIRوغیرہ کو On Record لیا گیا اور اِسے جرم کہا گیا۔ 

(۵) ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ءکو کار سیوکوں نے مسجد شہید کی اس جرم کو بھی تسلیم کیا گیا ، اسے بھی Recordپر لایا گیا۔

(۶) ASIرپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے یہ صاف کر دیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

ان تمام سچائیوں کو ریکارڈ پر لانے کے باوجود سپریم کورٹ نے مسلمانوں کو ان کی مسجد و زمین سے بے دخل کر دیا۔ قانون کے ماہرین یہ بتلا رہے ہیں کہ ایسا کورٹ نے دفعہ 142 کے ذریعہ حاصل شدہ اختیارات کو استعمال کیا اور یہ فیصلہ دیا۔ کیا اتنے سارے شواہد و ثبوت کی روشنی میں دفعہ 142 کے ذریعہ سپریم کورٹ ایک بنیادی حق سے مسلمانوں کو محروم کر سکتا ہے؟ اس فیصلے کے خلاف دانشوروں ، سابق ججوں، وکیلوں اور ماہرین نے زور دار آوازیں بلند کرنی شروع کر دی ہیں۔ممکن ہے یہ صدائیں بڑھ کر زبردست احتجاج میں تبدیل ہو جائیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ اب مسلمانوں نے بھی اس فیصلہ پر سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ کیرالہ اور دہلی میں عملاً احتجاج بھی ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ان آوازوں میں اپنی آواز ملانی چاہئے اور وقت کے اس پہر کو غنیمت جاننا چاہئے۔ 

مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت العلماء ہند و غیرہم کو نظر ثانی کی اپیل میں جانا چاہئے اور 5 ایکڑ زمین کو یکسر مسترد کر دینا چاہئے۔ کیونکہ مسجد کے بدل میں 5 ایکڑ کیا 50 ہزار ایکڑ زمین بھی نہیں لی جاسکتی۔ اگر بابری مسجد کے بدل میں کچھ بھی قبول کیا جائیگا تو وہ دین و شریعت کے خلاف ہوگا۔

عدالت کے اس فیصلے نے بابری مسجد کے سامنے خود سپریم کورٹ کو کھڑا کر دیا ہے اور نفس مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ یہاں سے اسکی شروعات ہو رہی ہے۔

مسلمانوں کو 6 دسمبر کو پوری مضبوطی اور سنجیدگی سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ بابری مسجد کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔اور اسے دہراتے رہنا چاہئے تاکہ یہ ظلم صدا یاد رہے۔ زخم ہرے رہیں اور اس سے رستا ہوا مواد یہاں کے حکمرانوں ، انصاف کرنے والوں اور نظام چلانے والوں کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرتا رہے۔

یہ فیصلہ ثبوتوں اور دلائل پر نہیں ہندوؤں کی آستھا پر دیا گیا ہے۔ اس لئے مسلمان اسے مسترد کرتے ہیں۔ 

 

ضیاء الدین صدیقی-اورنگ آباد

Share:
Share Tweet Share

Leave a Comment

Basit Siddiqui
الحمداللہ! بہت ہی نپا تلا تجزیہ ہے، اللہ صاحب مضمون کو صحت عطا فرمائے